14

عالم بشریت کی زد میں ہے گردُوں

یہ سفر قیامت تک ہونے والی ترقی پر انسانی ذہن کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے ۔ فوٹو : فائل

یہ سفر قیامت تک ہونے والی ترقی پر انسانی ذہن کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے ۔ فوٹو : فائل

معراج النبیؐ تاریخ نبوت، تاریخ انسانیت حتی کہ پوری کائنات میں ایک ایسا واقعہ ہے، جس کی کوئی اور نظیر نہیں ملتی، یہ نبیؐ کا اعجاز اور بے پایاں اعزاز ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل میں صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک! وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔‘‘

اﷲ ربّ العزت نے یہ فرمانے کی بہ جائے کہ جس نے ’’بندے‘‘ کو سیر کرائی بل کہ یوں فرمایا کہ جس نے ’’اپنے بندے کو سیر کرائی‘‘ گویا فرمایا جا رہا ہے کہ خبردار! یہ میرا کوئی عام بندہ نہیں۔ ’’اپنے بندے‘‘ میں جو اپنائیت ہے، جو چاہت ہے، وہ محبوبیت کے مختلف انداز اس سفر میں نظر آئیں گے۔

کسی بندے کو اپنانا اسے اپنے تعارف میں پیش کرنا یقیناً غیر معمولی بات ہے۔ اس آیت میں کتنی بڑی حکمت ہے کہ اس معجزہ کا دعویٰ حضورؐ فرما ہی نہیں رہے، دعویٰ تو خود اﷲ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ فرمایا کہ وہ ذات جس نے اپنے حبیبؐ کو اس سفر کی نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ ذات جو نقص اور عیب سے پاک ہے۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرتؐ کی رسالت کا محکم ثبوت فراہم کردیا گیا ہے۔

عربی لغت کے مطابق اسراء کا معنی رات کے وقت سیر کرنا ہے۔ رات کے لیے اس لفظ کا استعمال غالب ہے۔ اس آیت مقدّسہ پر غور و تدبر کریں تو ایمان میں مزید استحکام پیدا ہوتا ہے، مزید پختگی نصیب ہوتی ہے، نص قرآن سے بڑھ کر تو کوئی روایت نہیں ہو سکتی۔

جب باری تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو رات کے ایک قلیل عرصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔ جب کہ لفظ ’’معراج‘‘ عروج سے ہے اور عروج کے معنی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں۔ ’’معراج‘‘ کے معنی زینے اور سیڑھی کے بھی ہیں۔ اصطلاح شریعت میں معراج سے مراد یہ ہے کہ نبی کریمؐ کو رات کے ایک مختصر حصے میں روح اور جسم کے ساتھ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) سے ساتوں آسمانوں اور جنت و دوزخ کے مشاہدات اور سیر کرائی گئی اور آپؐ وہاں تک پہنچے جہاں تک اس سے قبل کوئی بشر نہیں پہنچا۔

اس پر بھی عقل انسانی حیرت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ انسانی ذہن میں خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ سفر جو اس دور میں بھی ہفتوں اور مہینوں کا ہے، وہ رات کے ایک تھوڑے سے وقت میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس کا انحصار تو لے جانے والے کی طاقت اور قوّت پر ہے۔ اس کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے سوچ کے دروازے کھول دیے گئے، کیوں کہ قرآن پاک اور نبیؐ کی ذات گرامی قیامت تک کے لیے ہیں۔

اب کوئی کتاب نہیں آئے گی نبوت کا اختتام پیارے رسول کریم ﷺ پر کر دیا گیا، لہذا یہ سفر قیامت تک ہونے والی ترقی، انسانی ذہن کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس سفر کا سارا انتظام ربّ کائنات کی طرف سے ہو رہا ہے، وہ جو ہر چیز پر قادر ہے۔ انسانی عقل اس کی قدرت کے سامنے بے بس اور عاجز ہے۔

اگر یہ نکتہ ذہن نشین کر لیا جائے تو سفر معراج کی ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ جب تک کوئی کام ہماری پہنچ یا دست رس سے باہر ہوتا ہے تو عموماً خیال کر لیا جاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ انسان کی قوّت اور اس کا دائرۂ عمل محدود ہے۔ کارخانۂ قدرت میں اسے ایک معمولی سی اکائی کی حیثیت حاصل ہے۔

ریڈیو، ٹیلے وژن، ہوائی جہاز، راکٹ، ٹیلی فون سے لے کر موبائل فون انٹرنیٹ، اسپیس، سیٹیلائٹ، جیمس ویب ٹیلی سکوپ وغیرہ سب کی اعلیٰ ترین صورتیں رسول اﷲ ﷺ کے معجزات میں موجود ہیں۔ روحانی ترقی میں قدرت کے مختلف خوارق و معجزات و کمالات صادر ہوتے ہیں اور مادی ترقی میں انسانی ترقیات کے کمالات‘ اسباب کے دائرہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔

بخاری شریف میں طویل حدیث ہے جس میں نبیؐ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا۔ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے، ایک جانور لایا گیا جو گھوڑے سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا اور سفید! اس کا ہر قدم اس کے منتہائے نظر پر پڑتا تھا، مجھے اس پر سوار کیا گیا۔

(ایک ایسے جانور کا ذکر کیا گیا ہے جس کی رفتار بجلی کی سی ہے، سمجھنے والوں نے سمجھ لیا کہ ٹائم اور سپیس کیا ہے؟ اور پھر اس میدان میں تحقیق کے دروازے تمام انسانوں کے لیے کھل گئے)

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مجھے اس پر سوار کیا گیا اور جبرائیلؑ مجھے لے کر چلے آسمان دنیا پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا‘‘ یہاں ایک اور سوچ کا زاویہ کھلتا ہے کے آسمان کے دروازے کھلتے ہیں، تو آگے سفر ہوتا ہے۔ اس موضوع کی مزید وضاحت قرآن کی روشنی میں ملتی ہے، اﷲ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہہ بہ تہہ راستے پیدا کیے ہیں اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں۔‘‘ (سورہ المومنون)

اﷲ نے قرآن پاک میں جن دروازوں کا ذکر کیا ہے وہاں سے نبیؐ کو گزار کر مشاہدہ بھی کروا دیا۔ مفہوم: ’’قسم ہے راستوں والے آسمان کی۔‘‘ (سورہ الذّٰریٰت)

جب اﷲ کسی چیز کی قسم قرآن پاک میں کھا رہے ہیں تو، یقیناً ان کی خاص اہمیت ہے، ہمیں ان باتوں پر غور و فکر اور تدبر کرنا چاہیے۔ مفہوم: ’’لوگو! یقین رکھو کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے اور تکبر کے ساتھ ان سے منہ موڑا ہے، ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔‘‘ (الاعراف)

کائنات کا ہر حسن حضورؐ کی رہ گزر میں آنکھیں بچھا رہا ہے۔ بہ قول اقبال ؒ:

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردُوں

علامہ اقبالؒ اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ نبی کریمؐ کے معراج پر جانے سے مجھے یہ سبق ملا ہے کہ اوپر کے عالم یا فضائے بسیط یا کائنات کی دوسری مشاہدہ میں آنے والی چیزیں انسانی پہنچ میں ہیں اور انسان ان تک پہنچ سکتا ہے۔

لہٰذا آج اگر انسان چاند پر پہنچا ہے تو پہنچ سکتا ہے اس میں کون سی تعجب والی بات ہے یہ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور برحق نبی ہونے کی ایک ٹھوس دلیل ہے کیوں کہ آپؐ نے بہ ذریعہ وحی وہ خبر دی جس کے متعلق اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا لیکن چودھویں صدی کے اختتام پر وہ سچ ثابت ہوئی۔ سائنس نے عملی طور پر نبیؐ کی بتائی ہوئی باتوں کی چودہ سو سال کے بعد تصدیق کی ہے۔

تخلیق انسانی کا وہ مقصد عظیم جس کی تکمیل کے لیے فطرت انسانی عقل سلیم کی روشنی میں بے تاب نظر آتی ہے صرف معرفت الٰہی ہے۔ زمین و آسمان و دیگر مصنوعات کائنات میں اﷲ تعالیٰ نے جس تفکر کی دعوت دی ہے وہ صرف ایسے طریقے سے ہے جس کا تعلق معرفت الٰہیہ سے ہو۔ چاند، سورج، ستاروں اور آسمانوں کے مسائل بھی اسی قسم کے ہیں۔

قرآن مجید نے ان کے موجود اور محسوس و مشاہدۂ حالات و کیفیات کو دلائل قدرت و براہین معرفت سے شمار کیا اور صرف اسی حیثیت سے ان میں تفکر کی دعوت دی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں