1

فلسطینیوں کا قتل عام آخر کب تک؟

آج فلسطینی مسلمان ممالک سے اسرائیل کی سفاکیت سے بچنے کے لیے دست بستہ فریاد کر رہے ہیں مگر افسوس کہ کسی بھی مسلم ملک کی حکومت ان کی مدد کے لیے قدم نہیں بڑھا رہی ہے۔

ارے اسلامی ممالک سے تو وہ غیر مسلم بہتر ہیں جو اسرائیل کے ظلم کے خلاف جاندار آواز بلند ہی نہیں کر رہے بلکہ عملی اقدام بھی کر رہے ہیں۔

جنوبی افریقی حکومت کا اسرائیل کے فلسطینیوں پر ظلم و ستم اور نسل کشی کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ درج کرانا اور پھر اس کے فیصلے میں نیتن یاہو کو فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے کا حکم صادر کرنا ایک غیر مسلم ملک کا بے مثال کارنامہ ہے جو مسلم ممالک کے لیے یقینا شرمندگی کا باعث بنا ہوگا۔

ایک اور غیر مسلم ملک برازیل نے اسرائیل کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کو ہولوکاسٹ قرار دیا ہے جب کہ ہولوکاسٹ کا لفظ صرف جرمنوں کے یہودیوں کے خلاف ظلم و ستم کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف چین، روس کیا یورپی یونین نے بھی آوازیں بلند کی ہیں، متحدہ عرب امارات اور الجزائر نے بھی قراردادیں پیش کی ہیں مگر اسرائیل کسی کی بات کو نہیں مان رہا، وہ تو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی عدالت کے فیصلوں کو بھی گھاس نہیں ڈال رہا ہے۔ وجہ صرف ایک ہے کہ امریکی حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

اسرائیل کے خلاف تمام عالمی قراردادوں کو ویٹو کرنے والا امریکا ہی ہے۔ ایک طرف اس نے نیتن یاہو کو فلسطینیوں کے قتل عام پر لگا رکھا ہے تو دوسری طرف فلسطین کے دو ریاستی حل کے مذاکراتی گورکھ دھندے میں عربوں کو پھنسا کر اسرائیل کو فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا موقع فراہم کر رہا ہے تاکہ خالی غزہ میں نیتن یاہو پوری دنیا کے یہودیوں کو وہاں آباد کرسکے کیونکہ اس وقت وہ جب بھی باہر سے آئے یہودیوں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد کرنے کے لیے نئی بستیاں بسانے لگتا ہے تو فلسطینی ان سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔

ادھر عرب ممالک ہی نہیں یورپی ممالک بھی ان نئی بستیوں کی سخت مخالفت کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اب تک وہاں سیکڑوں غیر قانونی بستیاں فلسطینیوں کی زمینوں پر بسا چکا ہے۔ نیتن کئی بار فلسطینیوں کو غزہ کا علاقہ پورا خالی کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے اور وہ یہ بھی بہ بانگ دہل کہہ رہا ہے کہ اب وہ پورے غزہ کو اپنے کنٹرول میں رکھے گا۔

اس کے جواب میں اردن کے بادشاہ عبداللہ نے اسے منہ توڑ جواب دیا ہے کہ اگر نیتن یاہو کے یہ جارحانہ عزائم ہیں تو پھر 1967 کے معاہدے کو وہ ختم کر دیں گے اور پھر اسرائیل کے لیے پورے فلسطین میں کوئی جگہ اس کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے نہیں بچے گی۔

اس وقت فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف اسرائیل جو بھی جارحانہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہے اس کے پس پشت اسے امریکی آشیرباد حاصل ہے۔پانچ ماہ ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ امریکی حکومت کسی طرح بھی جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے۔ روسی حکومت کی فلسطینیوں کے ساتھ اس امتحانی دور میں ہمدردی جاری ہے وہ ویسے تو غزہ میں براہ راست مداخلت بھی کر سکتا ہے مگر صرف اس لیے اس سے گریز کر رہا ہے کہ کہیں عالمی جنگ نہ چھڑ جائے۔

اس نے حماس سمیت دیگر فلسطینی تنظیموں کے نمایندوں کو ماسکو طلب کر لیا ہے وہ ان گروپوں میں اتحاد کرانا چاہتا ہے یہ ایک اہم اقدام ہے جس سے فلسطینی عوام کو نہ صرف راحت ملے گی بلکہ مسئلہ فلسطین کے حل میں بھی آسانی ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے غذائی اشیا کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں مگر ان کو اسلحہ فراہم نہیں کر سکتے، ادھر بھارتی حکومت کو دیکھیے کہ وہ اسرائیل سے دوستی کا پورا حق ادا کر رہی ہے، سننے میں آرہا ہے کہ اس نے مزدوروں کے بھیس میں اپنے تربیت یافتہ فوجی اسرائیل بھیجے ہیں، ساتھ ہی اسلحہ بھی اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔

یہ بات اس طرح بے نقاب ہوئی ہے کہ بھارتی بندرگاہوں کی ٹریڈ یونین کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے مزدور اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کے لیے جہازوں میں ہتھیاروں کو لوڈ نہیں کریں گے، خصوصاً اسرائیل کے لیے ہتھیار جہازوں پر لوڈ نہیں کریں گے۔اب پتا لگا ہے کہ مودی بھی نیتن یاہو کی مدد کر رہا ہے۔ آخر ہمارے مسلم ممالک خصوصاً عربوں کو کیا ہوا کہ وہ اپنا فرض نبھانے سے کترا رہے ہیں؟





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں