1

مظلوم و مغضوب فلسطینی؛ کیا امریکا کو شرم آتی ہے؟

امریکا نے بطورِ ریاست اور امریکی صدر، جو بائیڈن، نے بطور ایک طاقتور حکمران جس بے حسی اور وحشت سے غاصب اور سفاک اسرائیل کا دستِ ستم تھام رکھا ہے، اِس نے انسانیت کو شرما کر رکھ دیا ہے۔

امریکا کو مگر شرم نہیں آ رہی۔ امریکا نے برطانیہ، فرانس، کینیڈا کو بھی اِس ظلم میں اپنا ہمنوا بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کی ہمنوائی کرنے اور ہر حال میں ساتھ نبھانے کے عہد کے نتیجے میں کئی امریکی سیاستدانوں کو جدید دُنیا کے عوام کے سامنے شرمندگی اور ندامت اُٹھانا پڑ رہی ہے۔ یہ امریکی سیاستدان مگر پھر بھی صہیونی اسرائیل کی حمایت کرنے سے باز نہیں آ رہے۔

مثال کے طور پر گزشتہ روز برلن (جرمنی) میں سابق امریکی خاتونِ اوّل اور سابق امریکی وزیر خارجہ ، ہیلری کلنٹن، سے جرمنی کے دلیر عوام نے بر سرِ مجلس جو سلوک کیا ، اِس کی بازگشت ہر جانب سنائی دی گئی ہے ۔امریکی مقتدرہ پھر بھی اسرائیل کی محبت میں گرفتار ہے ۔

ہیلری کلنٹن برلن میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیمCinema For Peace Foundation کے لیے ایک بڑی تقریب میں شریک تھیں۔تقریب کے دوران جب ہیلری کلنٹن نے سینما کی مدد سے انسانی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کے بارے میں بات کی تو تقریب میں موجود شرکاء کی اکثریت برہم ہو گئی۔

ہیلری کلنٹن کی بات کاٹتے ہوئے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اس واقعے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں شرکاء کو ہیلری کلنٹن پر لعن طعن کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ شرکاء نے ہیلری کلنٹن پر تنقید کرتے ہوئے کہا :’’ انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی، پاکستان میں ہزاروں افراد کے قتل، افغانستان اور عراق سمیت پورے مشرقِ وسطی میں جنگی جرائم کا ذمے دار ہونے کے بعد آپ (امریکا) کو انسانی حقوق کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے‘‘۔

تقریب کے شرکاء کی جانب سے فلسطین کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ہیلری کلنٹن نے مگر شدید غصے اور ڈھٹائی سے کہا :’’ اگر آج اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کے قبضے سے رہائی مل جاتی ہے تو کل ہی غزہ میں جنگ بندی ہو سکتی ہے۔اس طرح آپ کے چیخنے چلانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

اگر غزہ میں لوگ مررہے ہیں تو جنگوں میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔‘‘ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب یہی ہیلری کلنٹن کولمبیا یونیورسٹی ( نیویارک) میں مسئلہ فلسطین پر خطاب کرنے آئیں تو سامعین طلبا میں سے کئی اُٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں War Criminalکا خطاب دے ڈالا۔ ہیلری ڈھٹائی سے یہ نعرے سنتی رہیں۔

مغربی عوام تو مقدور بھر امریکا کو شرم دلانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن امریکا کو شرم نہیں آ رہی ۔ وہ بدستور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت کرتا چلا جارہا ہے ۔ یو این سمیت دُنیا کی اکثریت اسرائیل سے ’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی کا مطالبہ کررہی ہے لیکن اسرائیل نہیں مان رہا۔ اس لیے کہ اُسے امریکا کی زبردست حمایت اور شہ حاصل ہے ۔

مثال کے طور پر فروری2024 کے آخری ہفتے الجزائر نے انسانی بنیادوں پر’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی کے لیے یو این کی سلامتی کونسل میں قرار داد پیش کی ۔ سلامتی کونسل کے مستقل 15ارکان میں سے 13ارکان نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ تو دیا مگر امریکا نے اِس قرار داد کو نہایت بیدردی سے ویٹو کر دیا۔ اور یوں یہ قرار داد بھی بے ثمر ہی رہی ۔ امریکا اِس سے قبل تین بار ’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو کر کے اسرائیل کے ہاتھ مضبوط کر چکا ہے ۔

ویٹو کیے گئے امریکی اقدامات سے اسرائیل کو ’’غزہ‘‘ میں مزید فلسطینیوں کے قتلِ عام کی شہ ملی ہے ۔ اسرائیل کے حق میں اور ’’غزہ‘‘ کے خلاف امریکا کی جانب سے ویٹو کیے جانے پر کئی ممالک نے سخت افسوس کا اظہار کیا ہے ۔

مثال کے طور پر یو این میں چین کے سفیر ، شینگ چون، نے کہا: ’’سخت مایوسی ہوئی ہے۔ امریکی ویٹو نے غزہ میں حالات مزید پُر خطر اور ہلاکت خیز بنا دیے ہیں ۔ اس ویٹو سے اسرائیل کو غزہ میں مزید خونریزی کے لیے سبز جھنڈی مل گئی ہے ۔‘‘ یو این میں رُوسی سفیرVasil Nebenziaنے تاسف کا اظہار کرتے ہُوئے کہا:’’ غزہ کے خلاف امریکی ویٹو نے یو این سیکیورٹی کونسل کی تاریخ میں ایک نیا سیاہ باب رقم کر ڈالا ہے ۔‘‘

الجزائر کے سفیر عمار نے کہا:’’ امریکی ویٹو سے مشرقِ وسطیٰ کا امن پھر سے تہ و بالا ہو جائے گا۔ امریکی حکومت اپنے ضمیر کو ذرا ٹٹول کر دیکھیے۔‘‘ فلسطینی سفیر، ریاض منصور، نے کہا:’’ دل ٹوٹ گیا ہے اس امریکی اقدام سے۔ ہم پھر بھی سیکیورٹی کونسل ، جنرل اسمبلی اور اقوامِ متحدہ کے جملہ اداروں کے دروازوں پر دستک دیتے رہیں گے ۔ کسی روز تو ہم مظلوموں کی آواز سُنی ہی جائے گی ۔‘‘

فلسطین اتھارٹی کے صدر، محمود عباس، نے کہا:’’ امریکی ویٹو سے اسرائیل پھر سے ، زیادہ وحشت کے ساتھ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو ذبح کرنے پر تُل جائے گا۔ اب غزہ کے مزید لوگ شہید ہوں گے ۔ مزید ناحق خون بہے گا۔ افسوس ۔‘‘او آئی سی نے بھی دبے الفاظ میں امریکی فیصلے کی مذمت کی ہے ۔ امریکا کے کانوں پر مگر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

اسرائیل دُنیا کا وہ واحد ملک ہے جسے امریکا کی جانب سے سب سے زیادہ فوجی اور مالی امداد ملتی ہے۔ امریکا ہر سال اسرائیل کو3.8ارب ڈالر کی ملٹری ایڈ فراہم کرتا ہے ۔ سالانہ فراہم کی جانے والی مالی امداد اِس کے علاوہ ہے ۔بی بی سی نے بجا طور پر سوال اُٹھایا ہے کہ اتنی بھاری مالی امداد اسرائیل کہاں کھپاتا ہے ؟

اب جب کہ اسرائیل پچھلے چار ماہ کے دوران 30ہزار سے زائد فلسطینی ، غزہ کے شہری شہید اور60ہزار سے زائد زخمی کر چکا ہے،امریکا پھر بھی اسرائیل کو امداد فراہم کرنے سے دستکش نہیں ہورہا ۔ مثال کے طور پر فروری2024کے وسط میں امریکا نے ایک بار پھر اسرائیل کو 621ملین ڈالر کی فوری امداد فراہم کر دی ہے ۔ اِس امداد سے اسرائیل نے اپنی فوج کو مزید بہتر بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔

امریکا کے ساتھ برطانیہ بھی ، اسرائیلی مظالم کے باوصف ، اسرائیل کو امداد اور اسلحہ فراہم کررہا ہے ۔ کئی برطانوی شہری برطانوی حکومت کے اِن اقدامات کو روکنے کے لیے عدالتوں میں بھی گئے ، لیکن برطانوی عدالتوں نے بھی اسرائیل کے حق میں فیصلے سنائے ۔ اور یوں برطانیہ دھڑا دھڑ اسرائیل کو اسلحہ فراہم کررہا ہے ۔

امریکی مقتدر سیاستدان اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اگر انسانیت کا مظاہرہ کریں تو اسرائیل فوری طور پر ’’غزہ‘‘ میں جنگ بندی کر سکتا ہے ، مگر امریکی طاقتور سیاستدان اسرائیل کو مزید مظالم ڈھانے کی شہ دے رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 22فروری2024کو یہ خبر آئی کہ امریکی کانگریس میں جب یہ بحث چھڑی ہُوئی تھی کہ ’’غزہ‘‘ میں بچوں کا قتلِ عام بند ہونا چاہیے تو امریکی رکنِ کانگریس Andy Oglesنے بے شرمی اور وحشت سے کہا: ’’ہمیں غزہ میں سب کو ہلاک کر دینا چاہیے۔‘‘ اور جب ساری دُنیا سے تنقید میں جوتے برسے تو اینڈی اوگلز نے پلٹنی پلٹتے ہُوئے کہا: ’’میں نے تو حماس والوں کے بارے بات کی تھی‘‘۔ تو کیا امریکا ’’حماس‘‘ والوں کی بھی مکمل ہلاکت چاہتا ہے؟ یہ تو دراصل اسرائیلی خواب، عزم اور ہدف ہے ۔ اِس بیان سے فلسطین بارے امریکی عزائم ظاہر ہوتے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں