1

آرٹیکل 370 کا قتل – ایکسپریس اردو

بھارتی حکمران طبقے نے جموں وکشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے ہی آئین وقانون کو پیروں تلے روند کر لاقانونیت کا نیا باب رقم کر دیا ۔ فوٹو : فائل

بھارتی حکمران طبقے نے جموں وکشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے ہی آئین وقانون کو پیروں تلے روند کر لاقانونیت کا نیا باب رقم کر دیا ۔ فوٹو : فائل

5 اگست 2019ء کو بھارت کے قوم پرست سیاست دانوں، جنرلوں اور سرکاری افسروں نے مل کر آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر دیا تھا۔

اسی آئینی دفعہ کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو بھارت میں خصوصی درجہ مل پایا تھا۔ اس قتل کے خلاف کشمیری رہنماؤں نے بھارتی سپریم کورٹ سے مدد مانگی۔مگر وہاں بیٹھے قوم پرست ججوں نے بھی 11 دسمبر 2023ء کومودی حکومت کا غیر آئینی و غیر قانونی اقدام درست قرار دے ڈالا۔یوں ثابت ہو گیا کہ آج بھارت میں آئین وقانون و اخلاق نہیں بلکہ طاقت کا راج ہے۔گویا جس کے پاس لاٹھی، بھینس کا مالک بھی وہی!

دفعہ 370 کی تاریخ

بھارت کے قیام سے قبل جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تھی مگر وہاں کا حکمران مہاراجا ہری سنگھ ہندو تھا۔تقسیم ہندوستان سے قبل مہاراجا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جموں و کشمیر کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا حصّہ نہیں بنانا چاہتا بلکہ ریاست خودمختار رہے گی۔اس دوران پاکستان سے قبائلی لشکر نے ریاستی مسلمانوں کو ڈوگرہ فوج کے مظالم سے بچانے کی خاطر کشمیر پر حملہ کر دیا ۔

یہ آپریشن شروع ہوتے ہی ہری سنگھ سرینگر سے فرار ہوکر جموں پہنچ گیا۔ وہاں اس نے بھارتی حکمران طبقے کے شدید دباؤ میں آ کر بھارت کے ساتھ دستاویزِ الحاق پر دستخط کر دیے۔اس طرح جموں و کشمیر چند اہم شرائط کے ساتھ بھارت کا حصہ بن گیا۔دستاویز الحاق میں شامل شیڈول نے پارلیمنٹ کو جموں و کشمیر کے حوالے سے صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات پر قانون سازی کرنے کا اختیار دیا تھا۔

دستاویز میں شق 5 میں مہاراجا نے واضح طور پر ذکر کیا “میرے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کی شرائط انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ کی کسی ترمیم سے تبدیل نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس انسٹرومنٹ کے ضمنی انسٹرومنٹ کے ذریعے اس طرح کی ترمیم کو میرے ذریعے قبول نہ کیا جائے”۔

الحاق کے بعد مارچ 1948 ء میں ہری سنگھ نے جموں و کشمیر میں ایک عبوری حکومت مقرر کی جس میں شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ریاستی وزیراعظم کی فرمائشوں کو پورا کرنے کے لیے مئی 1949ء میں بھارتی وزیر اعظم، جواہر لال نہرو نے ہندوستانی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا۔

اسی دفعہ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر یونین آف انڈیا کا حصہ قرار پائی۔ اس آرٹیکل کی خصوصیت یہ تھی کہ بھارت کی دیگر ریاستوں کے برعکس جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ مل گیا ۔ شیخ محمد عبداللہ نے پھر ریاست کے لیے الگ آئین مانگ لیا۔ 1951ء میں جموں و کشمیر ریاستی آئین ساز اسمبلی کے قیام کی منظوری دی گئی۔

دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو یہ خاص مقام حاصل ہوا کہ بھارتی پارلیمنٹ کا پاس کیا گیا کوئی بھی قانون جو دیگر ریاستوں میں لاگو ہوتا ہے، آرٹیکل370 کے اطلاق کے بعد جموں و کشمیر میں اسی وقت لاگو ہو گا جب ریاستی اسمبلی اسے منظور کر لے۔

آرٹیکل 370 کو آئین میں عارضی طور پر رکھا گیا، لیکن جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو اس میں ترمیم یا اسے حذف کرنے یا برقرار رکھنے کا حق حاصل تھا۔ 1956 ء میںجموں و کشمیر کو اپنا آئین مل گیا۔بعد ازاں ریاستی آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل 370 کی پوزیشن جوں کی توں رہی۔بھارتی سپریم کورٹ نے 1969ء اور 2018 ء میں اپنے فیصلوں میں قرار دیا کہ آرٹیکل 370 عارضی نہیں بلکہ مستقل حیثیت رکھتا ہے۔

1975 ء میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ’’ اندرا عبدللہ معاہدہ‘‘ کیا۔اس میں آرٹیکل 370 کی اہمیت دہرائی گئی۔اسی طرح 1995 ء میں تب کے بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے کہا کہ آرٹیکل 370 منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔یاد رہے، اس وقت جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی عروج پر تھی۔

 دفعہ 370 سے کیا ملا ؟

٭… اس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور الگ پرچم رکھنے کا حق دیا گیا۔

٭… بھارتی صدر کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ ریاست کا آئین معطل کر سکے۔

٭… دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت ریاست میں بھارتی قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔

٭… مرکزی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالی ایمرجنسی نافذ کر سکتی تھی، لیکن جموں و کشمیر میں اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

 کانگریس کا موقف

بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا تاہم پہلے انھوں نے اس معاملے میں چھ ماہ تک سرد مہری اختیار کیے رکھی تھی۔ بعد میں شیخ محمد عبداللہ ،سردار ولبھ بھائی پٹیل اوراین گوپال سوامی نے اس دفعہ کا مسودہ تیار کیا۔

جواہر لال نہرو کی سیاسی جماعت، کانگریس نے اپنے طویل دور حکومت میں صداتی حکم نامے کو ریاست جموں و کشمیر کی آئینی طاقت کم سے کم کرنے کے لیے ہتھیار بنا لیا۔اس نے بارہ صدارتی حکم نامے جاری کر کے حقیقی آرٹیکل 370 کو اچھا خاصا کمزور کر ڈالا۔مثال کے طور پہ 1965 ء تک جموں و کشمیر میں وزیر اعظم اور صدر ریاست ہوا کرتا تھا۔ کانگریس نے جموں و کشمیر کے آئین میں ترمیم کرکے وزیر اعظم کو وزیر اعلی اور صدر ریاست کو گورنر میں تبدیل کر دیا۔

 بی جے پی کی سیاست

بھارت میں حکمران قوم پرست سیاسی جماعت، بی جے پی روز ِاول سے آرٹیکل 370 کی مخالف ہے۔2014 ء کے الیکشن میں بی جے پی نے اپنے منشور میں یہ درج کیا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی دفعہ 370 منسوخ کرنا چاہتی ہے۔بی جے پی الیکشن جیت گئی۔ مرکز میں بی جے پی حکومت بننے کے بعد اس آرٹیکل کا معاملہ آئے روز بھارتی اخبارات کی سرخیوں میں آنے لگا۔

ریاست جموں وکشمیر میں مگر 2014 ء میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی۔ اس کے بعد مقامی کشمیری پارٹی،پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ دوستانہ معاہدہ کر لیا۔اس معاہدے کے تحت ریاستی حکومت تشکیل پا گئی۔

اس دوستانہ معاہدے کی روسے بی جے پی نے آرٹیکل 370 کے معاملے میں چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم 19 جون 2018 ء کو بی جے پی نے پی ڈی پی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔جب مقامی پارٹیاں مل کر حکومت نہیں بنا سکیں تو جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔

اپریل مئی 2019 ء میں بھارتی الیکشن ہوئے جس میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی۔لہذا مودی سرکار نے پارلیمانی طاقت کے بل پہ دفعہ 370 ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جولائی 2019 ء کے آخری ہفتے جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورس کی تعداد بڑھا دی گئی۔ مذید نفری کو وہاں بھیجا گیا۔ سالانہ امرناتھ یاترا بیچ میں ہی منسوخ ہو گئی۔ مرکزی حکومت نے تمام سیاحوں اور یاتریوں کو کشمیر چھوڑنے کا مشورہ دے دیا۔

اس وقت جموں و کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ یہ سب عسکریت پسندانہ حملے سے بچاؤکے پیش نظر کیا گیا ۔ 4 اگست کے دن پوری ریاست فوجی چھاونی میں تبدیل ہو گئی۔ موبائل فون سمیت لینڈ لائن فون بند کر دئے گئے۔ تمام سرکردہ مقامی جماعتوں کے لیڈر چاہے وہ نظریاتی طور بھارت نواز تھے یا علیحدگی پسند،انھیںجیل بھیج دیا گیا یا وہ گھروں میں نظر بند ہو گئے۔

5 اگست کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ( آرٹیکل 370 اور 35 اے ) منسوخ کرنے کے لیے ایک بل پیش کیا۔ اس بل کو پارلیمنٹ نے منظور کر لیا اور یوںجموں وکشمیر کی ریاست دو یونین علاقوں میں منقسم ہوگئی۔

دفعہ 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کا علحیدہ آئین منسوخ ہوگیا اور جموں و کشمیر میں تنظیم نو قانون کا اطلاق عمل میںآیا۔ کشمیر میں کئی ماہ تک کرفیو نافذ رہا اور وادی میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد تعینات رہی۔ اس دوران انٹرنیٹ سمیت فون سروس کو بھی کئی ماہ تک معطل کر دیا گیا ۔

پانچ اگست کے بعد مرکزی حکومت نے علیحدگی پسند تنظیموں پر یا تو پابندی عائد کر دی یا ان کے لیڈروں اور کارکنوں کو جیلوں میں بند کردیا ۔ منسوخی کے وقت مودی حکومت نے دعوی کیا کہ جموں و کشمیر میں یہ دفعہ تعمیر و ترقی میں رکاوٹ تھی، جبکہ اس کی آڑ میں ہی جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی نے جنم لیا۔یہ دراصل سچ کو پوشیدہ رکھنے کی بھونڈی کوشش تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔

سچ یہ ہے کہ ریاستی مسلمانوں کی تقریباً نناوے فیصد تعداد بھارت کے ہندو حکمران طبقے کی غلامی سے نجات چاہتی ہے۔ رفتہ رفتہ نوجوان کشمیریوں نے ہتھیار سنبھال لیے تاکہ بھارتی حکومت سے لڑ کر آزادی کی نعمت پا لی جائے۔ دفعہ370 ختم ہونے سے ریاست میں تحریک آزادی کا شعلہ مذید بھڑک اٹھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ہندو حکمران طبقہ کبھی بزور خاص طور پہ وادی کشیر پر قبضہ نہیں کر سکتا جہاں کی بیشتر آبادی مسلمان ہے۔ یہ خطّہ کبھی نہ کبھی پاکستان میں شامل ہو کر رہے گا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں