1

ٹینڈر کی منسوخی؛ سندھ میں آئندہ برس بھی درسی کتب بروقت دستیاب نہیں ہونگی

  کراچی:سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے نئے تعلیمی سیشن 2024میں درسی کتابوں کی چھپائی کاٹینڈراچانک منسوخ  کردیا گیا ہے جس کے باعث صوبے میں  آئندہ برس بھی  درسی کتابیں  دستیاب نہیں ہوں گی۔

سندھ میں نگراں صوبائی حکومت کی ناتجربہ کاری اورسابق حکومت کی باقیات کے سبب آئندہ چند ماہ میں شروع ہونے والے نئے تعلیمی سیشن 2024کے لیے بھی سرکاری اسکولوں اورمارکیٹ کے لیے درسی کتابیں بروقت دستیاب نہیں ہوں گی۔

اس بات کاقوی امکان ہوچلاہے کہ رواں تعلیمی سیشن 2023کی طرح اب آئندہ برس بھی صوبے کے طلبہ بغیرکتابوں کے اسکول جائیں گے کیونکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے نئے تعلیمی سیشن 2024میں درسی کتابوں کی چھپائی کا ٹینڈراچانک منسوخ کردیا گیا ہے۔  یہ ٹینڈر 12دسمبر کوجاری ہونا تھا اورایک روز قبل اسے اچانک منسوخ کردیا گیا۔

یادرہے کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پورے سندھ میں اس بار تعلیمی سیشن 15اپریل سے شروع ہونا ہے جبکہ کوویڈ 19کے بعد سے سندھ میں تعلیمی سیشن یکم اگست سے شروع ہورہاتھا جس میں کم از کم 4برس بعد تبدیلی کی گئی ہے لہذااس بارکتابوں کی چھپائی اوربروقت فراہمی کے حوالے سے پہلے ہی چیلنجزدرپیش تھے۔

قابل ذکرامریہ ہے کہ سندھ کی گزشتہ صوبائی حکومت اپنی نااہلی کے سبب پہلے ہی رواں سیشن میں درسی کتب مطلوبہ تعداد میں بروقت سرکاری اسکولوں کوفراہم نہیں کرسکی تھی۔

محتاط اندازے کے مطابق سرکاری اسکولوں کوکم از کم 20لاکھ درسی کتب کی کمی کا سامنا تھا جس کے سبب طلبہ اسکولوں میں بغیرکتابوں کے محض وقت گزاررہے تھے جس کے بعد ان کتابوں کی چھپائی کانگراں حکومت کے دورمیں ایک بار پھرآرڈرجاری کیا گیا اورگزشتہ ماہ نومبرتک نگراں وزیراعلیٰ سندھ خود طلبہ کوکتابیں تقسیم کرتے رہے۔

سرکاری اسکولوں میں طلبہ کتابیں شیئرنگ کے ساتھ پڑھنے پر مجبور رہے تاہم گھروں میں ان کے پاس کتابیں موجود نہیں ہوتی تھیں،  اب سندھ میں نئے تعلیمی سیشن 2024کے شروع ہونے میں پونے چارماہ رہ گئے ہیں اورکتابیں چھپ کرویئرہاؤسز میں پہنچی ہی نہیں جہاں سے متعلقہ اضلاع کے اسکولوں کوجاری کی جائیں گی۔

سرکاری اسکولوں کے 45لاکھ طلبہ کومفت تقسیم کی جانی ہیں اس کے علاوہ مارکیٹ کی لاکھوں کتابیں علیحدہ ہیں جن کی اشاعت ٹینڈرکی اچانک منسوخی کے بعد اب اس قلیل عرصے میں ہونا ناممکنات میں سے ہے۔

ادھر ٹینڈرمنسوخ ہوتے ہی چیئرمین سندھ ٹیکسٹ بک بورڈکے عہدے پرکام کرنے والے افسرآغاسہیل پٹھان اورسیکریٹری کے عہدے پر تعینات افسرنصرت پروین کوسندھ حکومت نے ہٹا دیااورسیکریٹری کے عہدے پر کالج کیڈرکے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسرکی تعیناتی کی گئی ہے۔

مذکورہ ایسوسی ایٹ پروفیسر پر پہلے ہی بورڈ میں بے ضابطگیوں کے سبب کئی الزامات کی باقاعدہ محکمہ جاتی تحقیقات کی جارہی ہیں کیونکہ ایسوسی ایٹ پروفیسرحفیظ اللہ مہر پہلے بھی کئی بارسندھ ٹیکسٹ بک بورڈ میں سیکریٹری کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں۔

سابق سیکریٹری کوہٹاکرایک بارپھراسی افسرکو سیکریٹری کاعہدہ دینے سے نگراں صوبائی حکومت کایہ عمل مشکوک ہوگیاہے کیونکہ مذکورہ افسرکورواں سال مارچ میں حکومت سندھ نے دومختلف الزامات کی بنیاد پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے تحقیقات شروع کی تھیں کہ ان پر بورڈآف گورنرزکی جانب سے الزام ہے کہ انھوں نے فروری 2023میں منعقدہ اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا اورنہ ہی اجلاس کی روداد”منٹس“اراکین کوبھجوائے۔

مزید یہ کہ بورڈکی جانب سے تقررکیے گئے سبجیکٹ اسپیشلٹ کوتعیناتیاں نہیں دی گئیں اوران کے مستقبل سے کھیلا گیا، ان معاملات پر مذکورہ افسرکی جون میں چیف سکریٹری آفس میں پرسنل ہیئرنگ تک کی گئی، رواں سال درسی کتب انھی کے دورمیں تقسیم کے لیے تاخیر کا شکارہوئیں۔

ادھر جب ”ایکسپریس“نے حفیظ مہر سے رابطہ کیا توان کاکہناتھا کہ ان کی تعیناتی کے معاملے کوعدالت میں چیلنج کیا گیا ہے لہذا ف الحال وہ اس عہدے پر کام شروع نہیں کرسکے ہیں۔

کتابوں کی اشاعت و تقسیم میں ایک بارپھرتاخیرکے حوالے سے ان کا کہنا تھاکہ جب وہ کام شروع کریں گے اورحکومت کہے گی توکتابیں وقت پرلاکردکھائیں گے ۔

ان کایہ بھی کہنا تھا کہ کتابیں 15اپریل تک نہ بھی آسکیں توبہت زیادہ تاخیرنہیں ہوگی۔  ان کا کہنا تھاکہ ٹینڈراب سیپرارولز کے مطابق جنوری میں ہی ہوسکے گا۔

واضح رہے کہ 12دسمبرکودرسی کتب کی چھپائی کے لیے جاری ہونے والاٹینڈرآخرکیوں منسوخ کیا گیا، یہ معاملہ معمہ بنا ہواہے اورکوئی بھی اس سوال کاجواب دینے کوتیارنہیں۔

خیال کیاجارہا کہ نگراں صوبائی حکومت کے دورمیں موجودگزشتہ حکومت کی باقیات کایہ دباؤتھاکہ ٹینڈرکاایک بڑاحصہ حیدرآبادکے مخصوص پبلشرزکے حوالے کردیا جائے ۔

سندھ ٹیکسٹ بک بورڈکاچارج چھوڑنے والی سیکریٹری نصرت پروین سے جب ”ایکسپریس“نے اس سلسلے میں رابطہ کیااورپوچھاکہ جب اپریل میں تعلیمی سیشن شروع ہونا تھا توپھرٹینڈرمنسوخ کیوں کیا گیا توان کا کہنا تھاکہ ٹینڈرکی منسوخی کے احکامات سیکریٹری اسکولزکی جانب سے آئے تھے اورکچھ مسائل تھے۔

اس سلسلے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن شیریں ناریجوسے بھی کئی باررابطے کی کوشش کی گئی تاہم وہ رابطے سے گریزاں رہیں۔

علاوہ ازیں جب نگراں وزیراعلی سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر سے ایک تقریب کے دوران ”ایکسپریس“نے سوال کیاکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈمیں ایسے وقت میں تبادلے کیوں کیے گئے ہیں جب ٹیکسٹ بک کی فوری اشاعت ہونی ہے جس پر ان کا کہنا تھاکہ یہ ساراکام بہتری کے لیے کیا گیا  ہے۔

ادھرترجمان نگراں وزیراعلیٰ سندھ سے جب”ایکسپریس“ نے سوال کیاکہ ٹینڈرکیوں منسوخ کیا گیا اوراب نئے تعلیمی سال پر کتابیں کیسے آئیں گی جس پر انھوں نے انکشاف کیاکہ سندھ حکومت اب یہ سوچ رہی ہے کہ کسی بھی پبلشرکوٹیکسٹ بک کی چھپائی کاٹھیکہ دیا ہی نہ جائے،  ہمارے انڈسٹریزڈپارٹمنٹ کے پاس بڑی اورمارکیٹ کے کام کے مطابق مشینیں موجودہیں لہذا اب درسی کتب انڈسٹریزڈپارٹنمنٹ سے چھپوائی جائیں وہاں سے کتابیں جلدچھپ کرآجائیں گی۔

واضح رہے کہ سندھ میں درسی کتب کی چھپائی کابجٹ دیگردوصوبوں پنجاب اورکے پی کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے،  پنجاب میں درسی کتب کی چھپائی کے لیے 7اورب اورکے پی کے میں یہ بجٹ اس سے بھی زیادہ ہے جبکہ سندھ میں یہ بجٹ 3ارب روپے ہے جس کی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے افسران تصدیق بھی کرتے ہیں۔

ادھر نگراں صوبائی وزیر تعلیم رعنا حسین نے حال ہی میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے دورے کے موقع پر اسکولوں میں کتابوں کے بک بینک کا خیال پیش کیا،  سرکاری پریس ریلیز کے مطابق اس سے حکومت کی خطیر رقم بچ جائے گی،  تاہم یاد رہے کہ اسکول کی سطح پر طلبہ کم عمر ہوتے ہیں اور کتابیں اس طرح استعمال نہیں کرتے کہ آنے والے طلبہ ایک بار پھر اسے استعمال کرسکیں۔

کئی برس قبل یہ منصوبہ کالج ایجوکیشن کی سطح پر متعارف کرایا گیا تھا جو بری طرح ناکام ہوا اور ازاں بعد کالجوں سے بک بینک اور کتابوں کی مفت تقسیم ہی ختم کردی گئی ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں