1

چترال کی زبانیں – ایکسپریس اردو

 چترال کی خوبصورت وادی خیبرپختون خوا کے شمالی علاقوںمیں ملاکنڈ ریجن کا ایک وسیع وعریض علاقہ ہے، جس کی بڑی اورمشترکہ زبان کہوارہے۔

اگر چہ یہ زبان چترال کے طول وعرض میں رائج ہے مگر کچھ دیگر مقامی زبانیں بھی چترال کی دیہاتی سطح پر بولی جاتی ہیں۔ چترال کی بڑی زبان کہوار کی وجہ تسمیہ یا علاقہ کی دیگر زبانوں مثلاً گبری، تانگیری، دھیڑی، کلاشی، باشگلی، فارسی، گوجری ،لٹکوہی وافغانی وغیرہ کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے ہم چترال کے خطے، جغرافیائی ماحول، ثقافتی حیات اورتاریخی حالات کے بارے میں معلومات کااحاطہ کریں گے۔

چترال کاعلاقہ اپنے قدرتی ماحول میں صوبے کے ایک بہترین جغرافیے کاحامل ایسا خطہ ہے جو جغرافیائی لحاظ سے چین اور دیگر ایشیائی ممالک سے متصل ہے۔ طویل عرصے سے اس کی اہمیت کاسبب یہ بنا رہا کہ چترال کاعلاقہ اپنے آس پاس کے علاقوں کی تجارتی گزرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا، اس لیے قدرتی طور پر یہ مختلف تہذیبوں کا بھی گہوارہ سمجھا جانے لگا۔

مشہور ترین ہندوکش اور قراقرم کی وادیوں کی وجہ سے اس کی مسلمہ جغرافیائی اور تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہاں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں نے تہذیبی اور ثقافتی نشانات چھوڑے اور زبان کی علامتوں کو بھی یہاں منقش کر دیا۔

چترال پر جس شاہی خاندان کی حکومت رہی، انہیں شاہان مہتران کہاگیا، اور اس مہتران شاہی خاندان کے لوگوں نے مہتران چترال کی حیثیت سے طویل عرصے تک حکمرانی کی۔ چترال ہمیشہ سے ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کے لیے پرکشش رہا ہے ۔ بطور ریاست چترال کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے، اورجن مہتران چترال کاذکر ہوا ہے، انہوں نے ریاست چترال پر حکومت کی۔

چترال کے قدیم نام

چترال جس کی عمومی زبان کھوار ہے اس کے بعض ایسے بھی نام ہیں جو زمانہ دراز سے مستعمل ہیں۔ مثال کے طور پر چترال کے قدیم لوگ اس خطے کو بلور بھی کہتے ہیں، اس کے وہ باشندے جو تانگیر وادی سے تعلق رکھتے ہیں وہ چترال کو ’’کوگو‘‘ کہتے ہیں اوریہاں کے باشندوں کو کوگوک کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لوگ جو نرست کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ چترال کو منگل یا مغل کہتے ہیں۔

چترال برف پوش وادیوں اورقدرت کے حسین مناظر کی ایسی سرزمین ہے جس میں تین سو پچاس کلومیٹر تک افغانستان کا علاقہ ہے، جو جبل قرمبارہ سے شروع ہوکر سلطنت افغانستان کے علاقہ بری کوٹ تک پھیلاہوا ہے۔ اس کے مشرق کی طرف چین اورکشمیرکا علاقہ اورمغرب کی جانب افغانستان کاعلاقہ برفانی پہاڑوں سے اٹا ہوا ہے۔

مشرقی سرحد چین اورکشمیر سے متصل ہے، اس میں کوہ ہمالیہ کے سلسلہ کی وسطی برفانی وادیاںہیں، یہ قراقرم اورکے ٹو کے نام سے موسوم ہیں۔ شاہراہ ریشم بھی اسی سلسلہ قراقرم کی ایک کڑی ہے جو چین اور پاکستان کی دوستی کی علامت ہے۔ یہاں سڑک بناکر پاکستان اورچین کے درمیان تجارتی راستے کو کھول دیاگیا ہے ۔

وجہ تسمیہ

چترال کی وجہ تسمیہ کے بارے میں فراموزخان چینی نژادکتاب کے مصنف کے بقول چترال کا لفظ چترکے لفظ پر اضافہ ہے چوں کہ وادی چترال جنوبی دروں کے راستوں کے ذریعے گندھارا کے نشیبی علاقوں سے متصل تھی اورگندھارا آرٹ یا تہذیب کامطلب ہی یہی تھا کہ اس آرٹ یعنی چترکاری کے ذریعے اس وقت کی ثقافتی اور تہذیبی زندگی کی عکاسی کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس وقت کی سیاسی اورمذہبی زندگی کی بھی عکاسی کی گئی۔

یہ چتر کاری کا فن جو پتھر کی تراش خراش یاکسی چٹان پر تصویر کی کندہ کاری یا مجسمہ سازی پر محیط ہے، یہ سب چتر کے دائرے میں آنے والی باتیںہیں۔ چوں کہ اس (چترال کی) سرزمین تک یہ فن پھیلاہوا تھا، اس لحاظ سے اس کا قدیم اور عمومی نام چتر تھا جو بعد میں بدل کر چترار ہوا اور پھر چترار سے چترال پڑ گیا۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چتر کا لفظ اونچی جگہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس نسبت سے بھی بعض محقیقین کا یہ خیال معتبر مانا گیا ہے کہ اسے چھت کے مشابہہ بھی کہاگیا ہے اورچتر کی تبدیل شدہ شکل چترال ہے، جو بلندی اور اونچائی پر ہونے کی وجہ سے چھت کا مفہوم دیتاہے۔ اس مناسبت سے بھی اس کا نام چترال پڑ گیا، جو سیکڑوں برسوں سے رائج ہے۔

اس کے علاوہ اسے کہوستان کے نام سے بھی موسوم کیاگیا جو کہو قوم کا مسکن ہے اور جن کی زبان کہوار ہے۔ وہ علاقہ جو اب تک خاص چترال کے نام سے مشہور ہے اور جو اب بھی چترال کا دارالخلافہ ہے، پھر اس سارے علاقے کو ہی چترال کے نام سے موسوم کر دیا گیا ۔

قوم کہواورکہوار زبان کی قدامت

جیسا کہ چترال میں بولی جانے والی زبان کہوار کاذکر ہوا ہے کہ اس وقت چترال میں بولی جانے والی زبان عموماً کہوار زبان ہے اوردیگر زبانیں ذیلی زبانوں میں شمارہوتی ہیں۔ جہاں تک کہوار زبان کاتعلق ہے یہ زبان کہوار اس لیے ہے کہ قوم کہو کی یہ زبان ہے اورکہو قوم کی طرف منسوب ہونے کے ناطے اسے کہوار کہاجانے لگا ہے۔

تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت چترال میں بولی جانے والی زبان کہوارکی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی ملتی ہیں۔ تاریخ قدیم کا مطالعہ ہمیں یہ معلومات فراہم کرنے کا سبب بنتاہے کہ کہو قوم کے لوگ شمال سے قراقرم اور جنوب سے ہندوکش کی وادیوں سے جائے امن کی تلاش میں یہاں آئے تھے اور یہ باشندے آئے روزکی جنگ وجدل کی زندگی سے بیزار ہوکر اس وادی (چترال) میں گھس آئے۔

یہ معاملہ بھی قابل ذکر ہے کہ شمال سے آئے ہوئے کہوار قوم کے باشندے گلگت اور ہنزہ میں بھی آباد ہیں جب کہ جنوبی حصے سے آئے ہوئے یہ امن پسند لوگ چترال کے علاقوں ارندو، دروش، باشقاء،کوہستان اورنرست آسمار میں آباد ہوگئے۔

شمال کی طرف سے آئے ہوئے باشندے زیادہ تر ترکستان اور بدخشاں تہذیب وتمدن کے حامل تھے۔ یہ لوگ چترال کے علاقے توریکہو، مولی کہو اور مستوج میں آباد ہوگئے تو ان کی نسبت یہ علاقے بھی تہذیب وتمدن کے گہوارا بن گئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان تمام علاقوں سے آئے ہوئے باشندوں کی نسلی پہچان یہ ہے کہ سب کے سب کہو قوم کے باشندے ہیں اور انہی کی نسبت سے کہوار زبان مستعمل ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ آیا کہوار زبان کا اثر ان تمام شمالی اورجنوبی علاقوں میں موجود تھا؟ اگر یہ شمالاً اور جنوباً اطراف سے آئے ہوئے لوگ اصلاً اورنسلاً کہو ہیں تو یقیناً ان کی زبان بھی پھر کہوار ہی ہوگی۔

اس لحاظ سے کہوار زبان کا حلقہ رقبے کے لحاظ سے شمالاً اورجنوباً پھیلا ہوا تھا اور جب وادی چترال میں آئے تو اپنی تہذیب وثقافت اور زبان یہاں لے کر آئے اورکہو قوم کی حیثیت سے یہاں آباد ہوئے تو اپنی زبان کہوار بھی یہاں پر رائج کردی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہوار زبان چترال میں وارد ہونے والی قوم کہو کی وجہ سے چترال کے شمال اورجنوبی خطوں میں پہلے سے بھی رائج تھی۔ اس لحاظ سے کہوار زبان کی قدامت کا سراغ ملتا ہے اور تحقیق کی بنا پہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ چترال وادی کے علاوہ چترال کے شمال اورجنوبی خطوں میں بولے جانے والی یہ قدیم زبان ہے۔

کہوار زبان کے علاوہ جتنی بھی دیگرگبری، تانگیری، کلاشی، باشکلی، گوجر، فارسی اور لٹکوہی زبانیں چترال میں بولی جاتی ہیں، یہ یہاں کے تمام باشندے سب زبانوں کو کہوار زبان سے ہم آہنگ کرکے بولتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں بولی جانے والی یہ مختلف ذیلی زبانیں باہمی متعارف اورغیر اجنبی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کہوار زبان میں سنسکرت، ترکی اورفارسی کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔

کہوار، چترال کی ایسی عمومی اورقدیمی زبان ہے، جسے ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگ چترال کی نسبت سے، چترالی کہتے ہیں۔ یہ تصور اتنا عام ہے کہ صوبے کے دارالخلافہ اورصدر مقام پشاورتک کے لوگ چترال کے جملہ باشندوں کو چترالی اور ان کی کہوار زبان کو چترالی زبان کہتے ہیں۔ اورجب وہ کہوار زبان کو چترالی کہتے ہیں تو یہ امتیاز روا نہیں رکھاجاتا کہ چترال کے کس خطہ کے لوگ ہیں اورکہوار زبان کے علاوہ کون سی علاقائی زبان بولتے ہیں بلکہ صورت حال چاہے جو بھی ہو، چترالی باشندے کو چترالی اور زبان کو چترالی زبان کہا جاتا ہے۔

کہوار زبان کی تاریخی اہمیت

خیبر پختون خوا میں بولی جانے والی تمام زبانیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں اور ثقافتی زندگی میں ان زبانوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ملاکنڈ ریجن میں ضلع چترال ایک وسیع وعریض رقبے پر مشتمل علاقہ ہے جہاں کہوار زبان کو علاقے کی عمومی اور بڑی زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اس زبان کی قدامت اورتاریخی حیثیت کے بارے میں چترال کے معتبر اورمعروف اہل قلم عنایت اللہ فیضی نے اپنی کتاب ’’کھوار بول چال‘‘ میں جو تفصیلات لکھی ہیں۔

ان کے مطابق کہوار زبان کی تاریخی حیثیت یہ بنتی ہے کہ یہ تین ہزار سال پرانی اورقدیم زبان ہے۔ فیضی صاحب نے اس سلسلے میں گریرسن کے حوالے سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کہوار ہندآریائی زبانوں کی ایک شاخ ہے جو دری زبانوں پر مشتمل ہے۔ اس زبان کی آوازوں سے متعلق تفاصیل اس کتاب میں درج ہیں۔ اس کی بعض ایسی مخصوص آوازیں ہیں جو روسی زبانوں سے مشابہہ ہیں، مثلاً ش، ژ اور چ، یہ اس زبان کی ایسی آوازیں ہیںجو روسی زبان سے مشترک ہیں اور اس کا مصدر، علامت ’’ک‘‘ کہوار اوربلوچی زبان میں مشترک ہے۔

ڈاکٹر فیضی کے مطابق کہوار زبان میں مرکب اضافی، مرکب توصیفی اور جملوں کی بناوٹ کے کچھ اصول اردو، سندھی اورکہوار میں ایک ہی جیسے ہیں۔ پشتو اورکہوار کے حروف تہجی’’خ‘ اورح‘‘ ایک جیسے ہیں ۔

جس طرح پشتو میں لکھا جاتاہے کہ سنگہ جس کا اردو میں معنی بنتاہے کس طرح اور خما یعنی میرا، مگر صوتی لحاظ سے یہ مختلف ہیں۔ جب کہ ح، چ اور ژ کی آوازیں شینا زبان اورکہوار میں مشترک ہیں۔ صوبے کی دوسری زبانوں کی طرح اس زبان کے بھی محققین اور بولنے والوں کا یہی دعویٰ ہے کہ اس کا زیادہ ذخیرہ الفاظ قدیم اورتاریخی زبان سنسکرت سے زیادہ متاثر ہے اوراس کا لہجہ اورگرامر فارسی سے قریبی مماثلث رکھتی ہے۔

کہوار زبان کا ذخیرہ بہت بڑا ہے، مفہوم کے لحاظ سے اس زبان کا لہجہ اجنبی معلوم نہیں ہوتا بلکہ ہرسننے والا اس کا مفہوم سمجھ لیتا ہے، البتہ کہوار زبان کی مخصوص آوازوں کے تلفظ کا ادراک اوراس کے مخصوص حروف کے ساتھ کہوار زبان کی تحریر ایسی نہیں ہے جسے آسانی سے سمجھاجا سکے۔ چنانچہ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے اس زبان کے بعض دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہوار کے جو مخصوص الفاظ ہیں ان کے اضافے کو ختم کردیاجائے اوراس زبان کی مخصوص آوازوں کو اردو رسم الخط کے ایسے حروف میں لکھا جائے جو ان آوازوں کے قریب تر ہوں۔

کسی بھی زبان کو سمجھنے اور آسانی سے سمجھانے کے لیے جس سے زبان کے فروغ کا پہلو نمایاں ہوتا ہو، اس کے پیچیدہ حروف کو اگر پاکستان کی قومی زبان اردو کے حروف سے تبدیل کردیاجائے تو اس زبان کے فروغ میں یہ ممد ومعاون ثابت ہوسکتاہے۔ بالخصوص وہ زبانیں جو محدود علاقوں میں بولی جاتی ہیں جن کی طرف محض اس لیے توجہ نہیں دی جاتی کہ اس زبان کے ایسے مخصوص حروف ہیں جن کا لکھنا، بولنا مشکل ہو۔

اس کے برعکس یہ نظریہ بھی اپنی جگہ پر قابل توجہ ہے کہ علاقائی زبانوں کی اپنی انفرادیت، ان کے مخصوص اور زائد حروف ہی کی وجہ سے قائم رہتی ہے۔ اس اعتبار سے کہوار زبان کی اپنی جدا اورانفرادی حیثیت بھی مسلمہ ہے مگر ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو بات کسی زبان کے فروغ کی راہ میں حائل ہوتی ہو، اسے قائم رکھنے پر اتنا اصرار کیوں ہو۔

کہوار زبان کے دانشوراور ادیب کہتے ہیں کہ کہوار کے رسم الخط سے اضافی حروف کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک عربی رسم الخط کے ساتھ وابستہ مشرقی زبانوں میں بین الاقوامی حروف تہجی کی طرح کے حروف متعارف نہ کرائے جائیں۔

کیوں کہ زائد آوازیں اوران آوازوں کے لیے زائد حروف ہی کسی قدیم زبان کی اصل پہچان ہوتے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک اس پہچان کو بہرحال قائم رکھنا، زبان کی اصلیت کو اس زبان کے ساتھ جوڑے رکھنا ضروری ہے۔ مگر اضافی حروف تہجی پراصرار زبان کے فروغ کو مشکل بناتا ہے۔

کہوا زبان کے حروف تہجی کی کل تعداد بیالیس بنتی ہے۔ ان بیالیس حروف میں وہ مخصوص حروف بھی شامل ہیں جو کہوار زبان کی اصلیت پر دلالت کرتے ہیں جب کہ وہ حروف جو اردو اورکہوار میں مشترک ہیں ان کی تعداد چھتیس رہ جاتی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں