1

کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو

غزل
آنکھ میں نور بھرے، خواب اجالے رکھے
ہر مصیبت کو خدا آپ سے ٹالے رکھے
وہ نظر مجھ کو کسی زعمِ جنوں جیسی ہے
وہ ہنسی مجھ کو کسی وہم میں ڈالے رکھے
یہ ترے عشق کے تحفے تھے کچھ اس واسطے بھی
تا دمِ حشر سبھی درد سنبھالے رکھے
نسبتِ قیس نہیں مانی تھی وہ لیلیٰ مزاج
ساتھ پھر میں نے کئی اور حوالے رکھے
نامہ بر آکے بتاتا رہا حالت اس کی
مخمصے میں وہ کبھی خط کو اٹھا لے، رکھے
(آزاد حسین آزاد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
مری توجہ کا منتظر ہے یہ آسماں بھی
مجھے سمندر بھی کھینچتا ہے، یہ کشتیاں بھی
خدا کا اسلوب کیا سمجھتے وہ لوگ جن کو
سمجھ نہیں آتیں کافکا کی کہانیاں بھی
ہوائے تازہ سے کھل اٹھے گا یہ دل کا موسم
ہیں بند اگرچہ، مگر کھلیں گی یہ کھڑکیاں بھی
تمام عمر ایک آگ سینے میں زندہ رکھی
مگر نظر میں تھے پھول بھی اور تتلیاں بھی
بیاضِ رفتہ اٹھا کے دیکھی تو یاد آیا
کہ داستاں بھی تھے اور ہم زیب ِ داستاں بھی
بدن کی خوشبو کی خواہش ِ بد میں اب کہ مجھ کو
عبور کرنا پڑیں گی دل تک کی سیڑھیاں بھی
کہیں سے اذن ِ سفر ملے گا تو چل پڑیں گے
تھکے ہوئے ہیں ابھی مسافر بھی ڈاچیاں بھی
اداس شہروں کی سنسناتی ہوائیں چپ ہیں
اور اونگھتی ہیں کھلے مکانوں کی چمنیاں بھی
ہر ایک شے کا وجود سالم ہے اس کی ضد سے
جبھی تو لوگوں میں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی
(ذی شان۔ پہاڑپور ،ڈیرہ اسماعیل خان)

۔۔۔
غزل
جنوں کی سمت سبھی حسبِ حال بڑھتے گئے
میں چل پڑا تو مرے ہم خیال بڑھتے گئے
جبیں کا بوسہ تھا پہلے سوال کی صورت
بس اک جواب ملا اور سوال بڑھتے گئے
وہیں رکی ہے مری عمر تم جہاں بچھڑے
کیلنڈروں پہ فقط ماہ و سال بڑھتے گئے
پھر ایک سبز زمیں آ گئی بشر کو نظر
زمین گھٹتی گئی اور کدال بڑھتے گئے
سب ایک جیسے تھے پھر آئنہ ہوا ایجاد
پھر اس کے بعد یہاں بے مثال بڑھتے گئے
اک ایک کر کے سبھی دوست بن گئے دشمن
ہماری ذات میں جوں جوں کمال بڑھتے گئے
(عبدالوہاب عبدل۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
آنکھ کھلتے ہی ترا نام پکارا جائے
کوئی بھی خواب نہ بے کار ہمارا جائے
جس کو بھی میری کسی بات پہ شک گزرا ہے
اس گلی میں وہ مرے ساتھ گزارا جائے
اب اگر اور کوئی حکم بجا لانا ہے
مجھ پہ وہ شعر کی صورت میں اتارا جائے
کوئی بھی شخص مرے ہاتھ پہ بیعت نہ کرے
پھر کوئی شخص مرے ساتھ نہ مارا جائے
اور مصرف ہی نہیں اس کا مرے پاس ایاز
ہاں مگر دل کو کسی حسن پہ وارا جائے
(محمد علی ایاز۔ کبیر والا)

۔۔۔
غزل
اِک ربطِ مسلسل کا اثر دیکھ رہا ہوں
میں ساتھ ہی کشتی کے بھنور دیکھ رہا ہوں
ساحل پہ کھڑے لوگ مِری آس نہیں ہیں
یوں ہی میں اُنھیں ایک نظر دیکھ رہا ہوں
کتنی ہی اذیت سے اُسے پالا تھا میں نے
آرام سے کٹتا جو شجر دیکھ رہا ہوں
ہر زخم یہ میرا ہے ستاروں کی طرح سے
ہر داغِ جگر اپنا قمر دیکھ رہا ہوں
تُو نے مجھے دیکھا تھا مگر میں تو ابھی تک
ٹھہری ہوئی خود پہ وہ نظر دیکھ رہا ہوں
(صدام حسین۔ مری ضلع راولپنڈی)

۔۔۔
غزل
خدا پناہ کہ نوکِ زباں سے اوپر تک
بھرا ہوا ہے یہ شاعر فغاں سے، اوپر تک
مزید ہنسنے کا مت کہہ، کہ ہم پہ واجب ہے
نہ آئیں اُس کے لگائے نشاں سے اوپر تک
کم اختلاط سہی پر ہیں سلسلے دل کے
زمیں سے نیچے تلک، آسماں سے اوپر تک
دل و دماغ نہ چاہیں تو مجھ قدم کی مجال؟
ملے ہوئے ہیں سبھی، ناتواں سے اوپر تک
ہنر ہمی میں نہیں ورنہ یار پہنچے ہیں
کوئی قلم، کوئی زورِ زباں سے اوپر تک
کنویں سے نکلا ہوں لیکن حسیں نہیں ہوں میں
سو خود ہی جانا پڑے گا یہاں سے اوپر تک
(زبیر حمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
تیرے ہرروپ نے بہروپ نے مارا ہے مجھے
زندگی میں نے کہاں تُو نے گزارا ہے مجھے
اِس طرح وقتِ الم چھوڑ کے جانے والے
بے کلی دنیا میں اِک تیرا سہارا ہے مجھے
سَر کے بل میں تو چلا آؤں گااتنا تو بتا
تُو نے کس دشت سے اے یار پکارا ہے مجھے
تجھ کو سونپی ہے محبت کی حکومت دل نے
اب کرم ہو کہ ستم ہنس کے گوارا ہے مجھے
وہ دل افروز پری وش جو ہے لاکھوں میں ایک
روح کا چین ہے اور جان سے پیارا ہے مجھے
غمِ دوراں سے بگڑ جانا تھا ہر چند مگر
ماں کی ممتا نے شب و روز سنوارا ہے مجھے
کس لیے زود پشیمان ہو اُس نے طاہرؔ
اپنی تقدیر کو جیتا ہے تو ہارا ہے مجھے
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
ہم بے ثبات لوگ تھے یونہی بکھر گئے
اپناجدھر کورخ ہوا چلتے اُدھرگئے
مہتاب پرتھامنتظر کوئی مرے لیے
اُس سے ہوا جو میل تومنظر سنور گئے
تصدیق اب کراؤں میں کس سے وفاؤں کی
اہلِ ہنر جو لوگ تھے جاں سے گزر گئے
گلشن میں یوں تو ہرطرف تھے گل کھلے ہوئے
دیکھا خزاں کارنگ تو چہرے اُتر گئے
جعفر ہمارا لوٹنا آسان تو نہ تھا
یاد اُن کی جب بھی آگئی ہم جلد گھر گئے
(اقبال جعفر۔دُرگ ضلع موسی خیل، بلوچستان)

۔۔۔
غزل
کمال کر نہ سکا با کمال ہوتے ہوئے
لہولہان ہوں تیروں سے، ڈھال ہوتے ہوئے
ضرور درد کی نسبت سے جاں سلامت ہے
جو زخم بھرتا نہیں اندمال ہوتے ہوئے
میں گر پڑا تو یہی لوگ طعنہ زن ہوں گے
جنہیں اٹھا کے چلا ہوں نڈھال ہوتے ہوئے
خدا کا شکر کہ کام آئی چشمِ اشک آلود
گلاب دیکھتا کیا پائمال ہوتے ہوئے
دعا ہے اس کو ندامت سے واسطہ نہ پڑے
جواب بنتے ہوئے اور سوال ہوتے ہوئے
نئی ضرورتیں کردار بھی نئے لائیں
کہانی سے نکل آیا ملال ہوتے ہوئے
مزاج سرد رکھے مطمئن سا پھرتا ہوں
میں اپنے سینے میں کیا کیا ابال ہوتے ہوئے
تقاضے ان کی طبیعت سے میل کھاتے نہیں
جو انتہائوں پہ ہیں اعتدال ہوتے ہوئے
سبق بگاڑ سے وارفتگی نہ لینے دے
تعلقات دوبارہ بحال ہوتے ہوئے
اسے نہال میں کیسے شجر دکھائی نہ دے
جو لمحے دیکھتا ہے ماہ و سال ہوتے ہوئے
ضرور آئے ہیں دامِ غرور میں جاذب
جو لوگ بن گئے عبرت مثال ہوتے ہوئے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
غزل
کہیں قیام نہیں پیش ہے سفر کیسا
مجھے تلاش ہے اپنی میں ہوں بشر کیسا
بہت طویل سفر ہے چلے چلو چُپ چاپ
یوں بات بات پہ کرنا اگر مگر کیسا
بجا ہے دکھ نہیں تجھ کو بچھڑنے کا مجھ سے
تو پھر یہ سُرخ سی آنکھیں یہ دیدہ تَر کیسا
تُو صرف اتنا بتا مجھ کو نامہ بَر میرے
وہ دیکھنے میں تجھے آیا ہے نظر کیسا
اگر خُدا کا نہیں خوف و ڈر ترے دِل میں
تو پھر زمانے کا رکھتے ہو دِل میں ڈر کیسا
کوئی کسی کا یہاں حال پوچھتا ہی نہیں
میں آگیا ہوں کہاں پَر یہ ہے نگر کیسا
ہو چل پڑے تو چلو صبر حوصلے کے ساتھ
یوں مڑ کے دیکھنا راحِل اِدھر اُدھر کیسا
(علی راحل۔بورے والا)

۔۔۔
غزل
یوں تو سب جانتے ہیں زیرِ زمیں جانا ہے
لیکن اطوار سے لگتا ہے ’نہیں جانا ہے ‘
تو نے بچپن میں جسے اپنا بتایا تھا مجھے
میں نے اس گڑیا کو بھی گھر کا مکیں جانا ہے
دوست اس شخص سے میری نہیں بننے والی
کیوں کہ اس شخص نے دنیا کو ہی دیں جانا ہے
میں تمھیں روز یہ کہتا ہوں مرے ساتھ رہو
اور تم روز ہی کہتے ہو ’نہیں، جانا ہے‘
تم مرے زخموں کو گننے کے لیے آئے ہو
ہاں مگر جلدی کرو میں نے کہیں جانا ہے
وہ اداسی کا جو گھر دیکھ رہے ہو حماد
وہ ہی مسکن ہے فقیروں کا وہیں جانا ہے
(محمد زیف ۔چکوال)

۔۔۔
غزل
یعنی کہ انسِلاک کا کوئی سبب تو ہے
خوفِ غبار و خاک کا کوئی سبب تو ہے
کھل کر مذاق کرنے سے کھلتا ہے رازِ دل
سو آپ سے مذاق کا کوئی سبب تو ہے
قوسِ قزح سے جوڑ دیا اُس بدن کا رنگ
اس کارِ اشتراک کا کوئی سبب تو ہے
کوئی تو ہے کہ جس کی تمنّا یہاں جلے
دیوارِ دل میں طاق کا کوئی سبب تو ہے
ہے اِس قدر حسین جو ترتیبِ دو جہاں
اِس حسنِ اتّفاق کا کوئی سبب تو ہے
کوئی لحاظِ جنس نہیں بات چیت میں
آج اِس قدر مذاق کا کوئی سبب تو ہے
شاید اُتارا جائے کسی اور عہد میں
اِس عہدِ خوفناک کا کوئی سبب تو ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
ابھی تک مونچ کا تاؤ نہیں ہے
روایت کا تو یہ بھاؤ نہیں ہے
منوں گندم پڑی ہے گھر میں لیکن
فقیروں کے لیے پاؤ نہیں ہے
محبت بٹ رہی تھی سب میں لیکن
مجھے اس نے کہا جاؤ نہیں ہے
کناروں کا بہت سنتے تھے کاشفؔ
یہاں پر بھی کوئی ناؤ نہیں ہے
(کاشف واصفی ۔خوشاب)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں