1

غیر معمولی حالات اور غیر معمولی حکمت عملیاں

عمومی طور پر سیاست اور جمہوریت کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ مسائل کا حل تلاش کرنے اور ایک متبادل راستہ دینے میں اپنا کردار نبھاتی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں لوگ سیاست اور جمہوریت سمیت آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین کرکے اس نظام پر بھروسہ یا اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ ہی اعتماد جمہوری نظام کی ساکھ کو بھی قائم کرتا ہے اور لوگوں کی جمہوریت کے ساتھ وابستگی کو بھی مربوط اور مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

اسی طرح سیاست اور جمہوریت کے بارے میں یہ رائے بھی موجود ہوتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سفر جدیدیت کی بنیاد پر اپنے اندر مزید بہتری پیدا کرتا ہے اور ریاست سمیت عام آدمی کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا عملی سبب بنتا ہے۔لیکن ہماری سیاست اور جمہوریت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے پرانی غلطیوں کو دہرانے سمیت نئی غلطیوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم جمہوریت کے اس سفر میں آگے بڑھنے کی بجائے مجموعی طور پر جمہوری معاملات کو کمزور کرنے کے کھیل کا حصہ بن گئے ہیں ۔

اس وقت پاکستان کی سیاست ، جمہوریت اور ریاست مجموعی طور پر کئی طرح کے بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ اصل بحران ریاستی ساکھ کا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہماری ساکھ پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک مسئلہ ہم راستوں کو عملی طور پر کھولنے کی بجائے بند کررہے ہیں ۔

ہماری حکمت عملی میں مسائل کا حل تلاش کرنا کم اور بگاڑ کو پیدا کرنا زیادہ ہوگیا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسائل تواتر کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اور ہماری داخلی پریشانیاں بھی ہمیں اپنی داخلی کمزوریوں کا احساس دے رہی ہیں ۔لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ جو پریشانی یا تشویش کا پہلو اس ملک کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ طبقات کو ہے اس کی کوئی جھلک ہمیں ریاستی سطح پر بھی نظر آتی ہے ۔

بظاہر تو ایسے لگتا ہے کہ فیصلہ ساز طبقات خوش بھی ہیں اور بے فکری کا شکار بھی ۔لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور وہ سنجیدہ ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان کی پالیسی یا قانون سازی سمیت عملدرآمد کے نظام میں ہمیں مجموعی طور پر کوئی سنجیدگی یا حالات کی بہتری کی عکاسی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔

اس وقت بھی ہم ایک ٹکراؤ کے کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ سیاسی مسائل کا حل غیر سیاسی انداز سے تلاش کرنا اور سیاسی مسائل کے حل میں طاقت کی حکمت عملی نے ہمارے قومی مسائل کو اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔ہمارے اس عمل کی وجہ سے جمہوریت کمزور اور غیر جمہوری طاقتیں مزید مضبوط ہورہی ہیں۔

قومی جمہوریت کا مقدمہ لوگوں میں اپنی اہمیت کھورہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ جو جمہوری انداز سے یہاں نظام چلایا جارہا ہے اس میں ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔  لوگوں کی امنگیں ، خواہشات یا ان کی سیاسی ، سماجی ، قانونی ، معاشی حیثیت اور بنیادی حقوق کے تحفظ کا احساس کمزور ہورہا ہے اور ان میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اس نظام میں ہمارے مقابلے میں طاقت ور طبقات کو فوقیت دی جاتی ہے۔

انتخابات جن کی بنیاد پر لوگوں کو یہ جمہوری حق دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق اپنی سیاسی قیادت کا انتخاب کرسکتے ہیں وہ بھی ہمارے جیسے کمزور جمہوری معاشروں میں سیاسی افادیت کو ختم کررہا ہے۔ یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ووٹرز کے مقابلے میں طاقت ور طبقات کے فیصلے اہم ہوتے ہیں اور ان ہی بڑوں کی بنیاد پر سیاسی نظام ، حکومت کے سیاسی دربار سجائے جاتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات 2024 بھی ہمارے مسائل کا حل ثابت ہونگے۔ انتخابات کے بعد کا جو منظر سمجھ آرہا ہے اس میں بھی ہم کو سیاسی محاذ آرائی اور تناؤ زیادہ غالب نظر آرہا ہے ۔ اگرچہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگلی حکمت عملی مضبوط معیشت سے جڑی ہوگی مگر مضبوط معیشت کا تصور ایک خوابی گفتگو لگتی ہے۔

ہمارے جو سیاسی و معاشی حقائق ہیں وہ دکھائی جانے والی تصویر سے بہت مختلف ہیں ۔سیاسی یا شخصی اختلافات نے شدت اختیار کرلی ہے اور ہم کسی کو بھی یا اپنے مخالف کو برداشت کرنے یا اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ۔ایسے میں مفاہمت کا راستہ کیسے اختیار کیا جائے اور کیسے ٹکراؤ یا تناؤ کی پالیسی سے گریز کیا جائے ۔

آپس میں بیٹھنا اور مل جل کر کوئی مفاہمت کا راستہ تلاش کرنا ہی مضبوط ریاست کی طرف قدم ہوسکتا ہے۔یہ جو ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں اس مہم جوئی سے گریز کیا جانا چاہیے ۔

ہمارا ایک بڑا مسئلہ ریاستی سطح سے معاشرتی سطح تک پھیلتی ہوئی تقسیم ہے۔ یہ عمل ریاستی مفاد کے لیے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس تقسیم میں رواداری ، تدبر، فہم و فراست ،ہم آہنگی کو پیدا کرنا کم اور نفرت، تعصب ، بدلہ کی سیاست کا پہلو زیادہ ہے ۔

تقسیم کا یہ عمل ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر دیکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہماری تصویر دونوں محاذوں پر کمزور نظر آرہی ہے۔اس تقسیم کا حل بھی ہم سیاسی یا علمی و فکری بنیادوں پر تلاش کرنے کی بجائے طاقت کے انداز سے جڑی حکمت عملی سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حکمت عملی ناکام ہورہی ہے ۔

اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم مہم جوئی سے باہر نکلیں اور جو کچھ نفرت یا غصہ کی بنیاد پر مقابلہ بازی کا رجحان ہے اس کو ختم کرکے خود میں بھی رواداری پیدا کریں اور دوسروں کو ترغیب دیں کہ مل جل کر بہتری کا راستہ تلاش کریں ۔ہمارے مسائل کا حل مفاہمت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے سے ہے۔

غلطیاں سب سے ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں ان کا ازالہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر جذباتیت کی جگہ دلیل ، منطق اور فکری گہرائی کی ضرورت ہے ۔ غلطیوں کو تسلیم نہ کرنا اور ڈھٹائی سے اس پر کھڑے رہنا درست حکمت عملی نہیں بلکہ یہ عمل نئے راستوں کو کھولنے اور بہتری کے نئے امکانات کو بھی محدود کرتا ہے۔ ریاست اور عوام کا باہمی تعلق ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کی ضمانت سے جڑا ہوتا ہے ۔ یہ جو ریاست اور شہری کی سطح پر عمرانی معاہدہ ہیں وہ ہی فریقین میں موجود خلیج کو کم کرسکتا ہے ۔

ریاست لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑتی ہے اور لوگوں کو ساتھ جوڑ کر اپنے باہمی تعلق کو مضبوط بناتی ہے ۔ یہ احساس کہ ریاست عام آدمی سے لاتعلق ہوگئی ہے اس کی ہر سطح پر نفی کی جانی چاہیے ۔اس لیے موجود حالات میں سب ہی فریقوں کو اپنی اپنی سیاسی یا دیگر پوزیشنوں سے پیچھے ہٹ کر دوسروں کے لیے راستہ بنانا ہوگا۔ 2024کے انتخابات کو ہمیں کسی بھی صورت میں ایسے کھیل کا حصہ نہیں بنانا چاہیے جو معاشرے میں مزید سیاسی تقسیم کو گہری کرے۔

اس وقت ایک دوسرے پر سیاسی سبقت کی جنگ میں ہمیں اپنے قومی مسائل کے حل اور اس سے جڑی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔سب سے بڑھ کر ریاست اور سیاست کے تمام ہی فریقین کو یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ہم مشکل وقت سے گزر رہے ہیں اور ان حالات کا مقابلہ ہم سیاسی تنہائی میں یا اکیلے نہیں کرسکیں گے۔

یہ امر ہم سے مشترکہ حکمت عملی کا تقاضہ کرتا ہے ۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو ہمیں ایک مضبوط اور خود مختار ریاست کی طرف پیش قدمی کرنے میں مدد فراہم کرسکے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں