اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ جب میں سمجھوں گا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر ہونا چاہیے تو میں کروں گا۔
میری مرضی ہے جب میں کروں گا تو کروں گا، فکر کیوں کر رہے ہیںآپ۔ آپ کو بھی خبریں ملیں گی۔ ہمیں بھی ملیں گی۔ ہر چیز ایک ہی دن تو نہیں ہوجائے گی ناں۔ ابھی ایک ایکشن ہوا ہے، دوسرا ایکشن ہوگا، چوتھا ایکشن ہوگا، پانچواں ہوگا اور ایکشن چلتے رہیں گے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معافی تو کسی سے بھی مانگی جا سکتی ہے، کوئی گناہ نہیں ہے لیکن معافی مانگنے کے لیے کوئی غلطی کرنا بھی تو ضروری ہے۔ اگر میں نے کوئی غلطی کی ہے تو میں تھڑے پر بیٹھے شخص سے بھی کیمرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں گا۔ مجھے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر میں نے کوئی کام غلط نہیں کیا تو میں وضاحت کروں گا۔
چیف جسٹس کی ایمانداری کا ان کے تقرر سے پہلے بھی قائل تھا اور ان کے بینچ کی بھی عزت ہے۔ مجھے ان کے سامنے پیش ہونے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ان کا جو بھی فیصلہ ہوگا۔ وہ میں قبول کروں گا۔ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اس لیے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنی بات کر سکتا ہوں۔ اگر دس کا فگر ہے اور اگر ڈھائی فیصد بات ججوں اطہر من اللہ اور بابر ستار کے بارے میں ہے تو میں اس کی وضاحت کروں گا۔ خط کا جواب نہیں مل رہا تھا اور جواب کے بعد اس میں کتنا ابہام تھا، وہ تو میں جواب دوں گا۔
پریس کانفرنس میں خاص طور پر دو ججوں کے بارے میں خط کے تناظر میں بات کی تھی، عدلیہ کے خلاف کوئی بات نہیں ہے، اگر میں آپ سے خط مانگوں گا تو آپ کا نام لے ہی لوں گا لیکن اگرآپ کہیں کہ میں نے پورے میڈیا سے یہ بات کرلی تو وہ تو میں نے نہیں کی۔ عدلیہ کو 140 ویں نمبر سے نمبر ون پر دیکھنا چاہتا ہوں۔ کوشش یہ کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے اس کا ریورس گیئر لگے اور لگے گا۔ عدلیہ کا احترام ہے جب ہی یہاں پیش ہوا ہوں اور جیسا عدلیہ کہتی رہے گی ویسا ہوتا رہے گا۔
میں نے دہری شہریت پر اعتراض نہیں اٹھایا، اگر قانون ہے تو رکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، آپ نے جو جواب دیا ہے اس میں تاثر یہ دے دیا ہے کہ ریکارڈ میں ہے لیکن جواب میں یہ کہہ رہے ہیں کہ شواہد نہیں ہیں۔چیف جسٹس کے خلاف منظم مہم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’’وہ‘‘ براہ راست چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، وہ ٹرولز ہیں، وہ مقبول ہیں، انہیں 9 مئی میں تنصیبات اڑانے کی بھی اجازت ہے، وہ مقبول ہیں، ان کو ایس آئی ایف سی پر الزام لگانے کی بھی اجازت ہے، وہ شہیدوں کے تمسخر اڑاتے ہیں۔
ان کے جنازیں نکالتے ہیں، وہ مقبول ہیں، وہ کرسکتے ہیں، وہ نام لے کر دہشت گردی کی باتیں کرتے ہیں، وہ کرسکتے ہیں کیونکہ وہ مقبول ہیں، ان کے ٹرولز ہیں،آپ کے پیچھے ٹرولز ہیں؟ میرے پیچھے بھی ٹرولز نہیں ہیں تو ہم یہاں ہیں، جس کے پیچھے ٹرولز ہوں گے وہ بادشاہ ہے اس ملک میں۔