16

پاکستانی نوجوان بیرون ملک کیسے جائیں؟

پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ مایوس نوجوان طبقہ ہے، جسے اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ مختلف ادوار کی حکومتوں کی دہائیوں سے جاری ناکام پالیسیوں اور ذاتی و سیاسی سمجھوتوں کی بنیاد پر کیے گئے تجربات نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ باری باری حکومتوں اور اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے ہر دور میں اصلاحات کے دعوے تو بے شمار کیے، مگر سب کےلیے سابقہ حکومتیں کرپٹ رہیں اور انہوں نے خود پر عوام سے مخلص ہونے اور دیانت داری کا لیبل لگانے ہی کو بہتر کارکردگی جانا۔

ملک کا کوئی سرکاری محکمہ ایسا نہیں جہاں بدعنوانی کی تاریخ نہ ملے۔ نیچے سے اوپر تک ہر درجے پر، ہر درجے کی کرپشن معمول کی بات ہے۔ سیاسی مفادات کے تحت بھرتیوں اور قومی خزانے کو پارٹی کا مال سمجھنے والوں نے اسٹیل مل، پی آئی اے اور ایسے دیگر بڑے ادارے سونے سے مٹی بنا دیے۔

درج بالا پوری صورت حال کو دیکھا جائے تو جہاں پاکستان کا ہر شہری (اشرافیہ کو چھوڑ کر) ذہنی مریض اور پیدائشی طور پر لاکھوں روپے کا مقروض ہے، وہیں قوم اور ملک دونوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان اور افسوس کی بات یہ پتا چلتی ہے کہ نوجوان نسل نام نہاد رہنماؤں اور حکومتوں سے شدید مایوس ہوچکی ہے۔

نوجوانوں کو ملک میں رہتے ہوئے روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع دستیاب نہیں۔ حکومتی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں ملک میں چلنے والے کاروبار تقریباً ٹھپ ہیں، سرمایہ کاری نظر نہیں آرہی، بیرونی ممالک سے قرض لے کر بینکوں میں ڈالر ظاہر کرنا پڑ رہے ہیں، اس پوری صورت حال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر ملک سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہا ہے، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 2023 میں تقریباً 8 لاکھ سے زائد پاکستانی روزگار کی خاطر ملک سے ہجرت کرکے بیرون ملک گئے۔ اسی طرح 2024 میں بھی یہ تعداد اسی سے ملتی جلتی ہے، تاہم یہ نمبرز قانونی طور پر جانے والوں کے ہیں، اس کے علاوہ غیر قانونی طریقے سے اپنی جان کا خطرہ مول لے کر جانے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، جن سے متعلق اکثر ہلاکتوں کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔

پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس وقت شدید مایوسی کی حد تک ذہنی دباؤ کا شکار ہے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سرکاری یا نجی سطح پر روزگار کے معقول مواقع سے محروم ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کے اپنا گھر اور ملک چھوڑ کر باہر جانے کا مقصد بھلا روشن مستقبل کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟

روزگار اور تعلیم کی غرض سے بیرون ملک جانے کا سلسلہ کوئی نئی بات یا نئی لہر نہیں ہے۔ صدیوں سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے، تاہم موجودہ حالات ماضی کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔ آج انسانی ترجیحات بالکل تبدیل ہوچکی ہیں۔ مہنگائی نے انسان کا جینا مشکل تر کردیا ہے، جس کےلیے وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کو تیار ہے۔

اسی طرح دنیا میں ہونے والی ترقی اور جدت کے نتیجے میں لوگوں میں نئے مواقع اور بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جانے کی ترغیب بھی پیدا ہوئی ہے، تاہم بیرون ملک جانے کے لیے مخصوص طریقے اور قانونی تقاضے ہیں جنہیں سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس تحریر میں ہم پاکستانی نوجوانوں کےلیے بیرون ملک جانے کے مختلف طریقوں، قانونی ذرائع اور ان کے روشن مستقبل کے امکانات پر بات کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

1۔ بیرون ملک جانے کے ذرائع

پاکستانی نوجوانوں کےلیے بیرون ملک جانے کے کئی ذرائع ہیں، جو شعبوں اور مواقع کی بنیاد پر مختلف ہوتے ہیں۔

(الف) تعلیم کےلیے بیرون ملک جانا

بیرون ملک جانے کا سب سے زیادہ مقبول طریقہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ہے۔ بہت سے پاکستانی نوجوان اسکالرشپس یا سیلف فنانس کے ذریعے مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلیے جاتے ہیں۔

تعلیمی اسکالرشپس: مختلف ممالک میں طلبا کےلیے خصوصی اسکالرشپس فراہم کی جاتی ہیں، جس میں جامعات، تنظیموں یا حکومتوں کی جانب سے تعلیم کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح کئی ممالک میں تعلیم کے اخراجات تقریباً نہ ہونے کے مترادف بھی ہوتے ہیں۔

تعلیمی ویزے: کئی ممالک جیسے امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا اپنے تعلیمی اداروں میں دیگر ممالک کے طلبا کو ویزا فراہم کرتے ہیں۔ اس مقصد کےلیے نوجوانوں کو مطلوبہ تعلیمی پروگرام کی دستاویزی تصدیق، داخلہ اور پھر مطلوبہ ویزا حاصل کرنا ہوتا ہے۔

تحقیق کے مواقع: پاکستانی نوجوان تحقیق کے شعبے میں بھی ملک سے باہر جا کر کام کرسکتے ہیں۔ ان کی تحقیقی صلاحیتیں بھی مختلف اسکالرشپس کے ذریعے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کا سبب بن سکتی ہیں۔

(ب) ملازمت کے مواقع

بیرون ملک جانے کا دوسرا طریقہ اچھے روزگار کے مواقع تلاش کرنا ہے۔ عالمی سطح پر تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کےلیے روزگار کے اچھے مواقع موجود ہیں، خاص طور پر سائنس، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیکل کے شعبوں میں جانا مزدور کے طور پر جانے کے مقابلے میں زیادہ سہل ہے۔

ورک ویزا: کئی ممالک مثلاً کینیڈا، آسٹریلیا یا دبئی وغیرہ ورک ویزا فراہم کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر نوجوان اپنے روزگار کےلیے بیرون ملک کام کرسکتے ہیں۔

گلوبل ٹیلنٹ پروگرامز: کینیڈا، آسٹریلیا اور کچھ دیگر ممالک نے خاص طور پر اپنے شعبوں کے ماہر افراد کےلیے گلوبل ٹیلنٹ پروگرامز شروع کر رکھے ہیں، جن کے تحت ان افراد کو ورک ویزا دیا جاتا ہے۔ اس میں ایسے افراد کوترجیح دی جاتی ہے جو خاص مہارت کے حامل ہوں اور عالمی سطح پر کام کرنے کے اہل بھی۔

(ج) ہنرمند افراد کےلیے ویزے

بہت سے ممالک میں ہنرمندوں کےلیے ورک ویزے فراہم کیے جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی نوجوان کسی خاص شعبے یا فن کا ماہر ہو۔ ان شعبوں میں تعمیرات، آئی ٹی،یا میڈیکل وغیرہ شامل ہیں، تو ایسے افراد ہنر مند ویزوں کے ذریعے بیرون ملک جا کر کام کرسکتے ہیں۔

(د) کاروبار اور سرمایہ کاری

پاکستانی نوجوان بیرون ملک کاروبار کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے بھی جاسکتے ہیں۔ کئی ممالک میں سرمایہ کاری کےلیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں جن کے تحت کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے یا کسی چلتے ہوئے کاروبار میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

2۔ بیرون ملک جانے کے قانونی طریقے

پاکستانی نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے پہلے قانونی طریقوں اور تقاضوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہر ملک کے قوانین ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، کہیں بہت زیادہ سختی اور کہیں نرمی ظاہر کی جاتی ہے، جس کا تعلق ان کی اپنی طلب اور ضرورت سے ہوتا ہے، تاہم کچھ عمومی قانونی طریقے اور ذرائع ایسے ہیں جو تمام ممالک میں اہم سمجھے جاتے ہیں۔

(الف) ویزا کےلیے درخواست دینا

بیرون ملک جانے کےلیے سب سے ضروری عمل ویزا حاصل کرنا ہے۔ ویزا کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔

تعلیمی ویزا: اگر آپ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو متعلقہ ملک کے تعلیمی ویزا کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ آپ کو اپنے تعلیمی پروگرام کی مکمل تفصیلات، مالی طور پر مستحکم ہونے کے دستاویزی ثبوت اور ویزا درخواست فارم جمع کرانا ہوگا۔

ورک ویزا: اگر آپ ملازمت کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو آپ کو ورک ویزا کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ آپ کو متعلقہ ملک سے ملنے والی ملازمت کی پیشکش (جاب آفر)، اپنی قابلیت اور تجربے کا دستاویزی ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

سیاحتی ویزا: سیاحتی مقاصد کے لیے بیرون ملک جانے کے لیے سیاحتی ویزا درکار ہوتا ہے، جس کےلیے آپ کو اپنے دورے کی مدت، مالی حالت اور واپسی کے ارادے کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔

(ب) قانونی دستاویزات اور ثبوت

بیرون ملک جانے کےلیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس تمام امور کی متعلقہ ضروری دستاویزات موجود ہوں، مثلاً آپ کے پاس درست پاسپورٹ ہونا ضروری ہے جس کی میعاد ختم ہونے کے قریب نہ ہو۔ اسی طرح آپ کی تمام تعلیمی اسناد اور سرٹیفکیٹس بھی ہونے چاہئیں، جو آپ کے تعلیمی کیریئر کے ثبوت کے طور پر ضروری ہیں۔ اسی طرح کئی ممالک میں جانے کےلیے آپ کو خود کو مالی لحاظ سے مستحکم ثابت کرنا ہوتا ہے، جس کا مقصد اس بات کی تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ آپ کی آمدن اور فنڈز بیرون ملک تعلیم یا کام کے لیے کافی ہوں گے۔

(ج) مہارت اور تجربہ

بیرون ملک جانے کےلیے آپ کو اپنے شعبے میں مہارت اور تجربے کی ضرورت ہوگی۔ خاص طور پر کام کے ویزے کےلیے آپ کو اپنے متعلقہ شعبے میں کچھ برس کا تجربہ اور مہارت حاصل کرنا لازمی ہوگا۔ اس لیے اگر تجربے کا سرٹیفکیٹ اور متعلقہ شعبے میں کسی مختصر دورانیے کے کورس کا سرٹیفکیٹ بھی ہو تو وہ آپ کےلیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

3۔ بیرون ملک جانے کی تیاری

پاکستانی نوجوانوں کےلیے بیرون ملک جانے کی تیاری بہت ضروری ہے۔ اس کےلیے مالی منصوبہ بندی، جس ملک جا رہے ہوں، وہاں کے طرز زندگی کی معلومات اور زبان کو بنیادی سطح تک سیکھنے کے ساتھ دیگر ضروریات بھی شامل ہیں۔

ملک سے باہر جانے کےلیے مالی تیاری سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس کےلیے آپ کو اپنے ممکنہ اور متوقع اخراجات کا تخمینہ لگانا ہوگا اور یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ بیرون ملک رہنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے کس طرح اپنے مالی معاملات کو سنبھالیں گے۔

اسی طرح بیرون ملک جانے کےلیے وہاں کے طرز زندگی کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ نئے معاشرے کی ثقافت، معاشی اور سماجی حالات سے بنیادی حد تک واقفیت آپ کےلیے معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

بیرون ملک جانے سے سب سے پہلے اپنے ہنر اور قابلیت کو مزید بہتر سے بہتر بنانا چاہیے۔ اگر آپ کام کےلیے جارہے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی مہارت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جاتی ہو۔

پاکستانی نوجوانوں کےلیے بیرون ملک جانا اُن کے پیشہ ورانہ کیریئر اور مستقبل کےلیے اہم ترین معاملہ ہے، تاہم اس کےلیے مختلف قانونی طریقوں، ویزوں، دستاویزات اور تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ مصدقہ اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں۔ بیرون ملک جانے کے درست اور قانونی طریقے اختیار کریں اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں