[ad_1]
آج ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ’’ہر مال بکے گا دو آنے‘‘ کی سرخی صرف اخباری کالم نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کا آئینہ ہے۔ قومی ادارے، جو ایک وقت میں قوم کی شناخت، ترقی اور خودمختاری کی علامت تھے، آج برائے فروخت ہیں۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ نااہلی اور کرپشن کا ایک طوفانِ بلاخیز ہمارے ملک کے خدوخال کو مٹانے پر تلا ہوا ہے۔ گویا ارضِ پاک اپنی بنیادوں سے اکھڑ کر بے سمتی کی تاریک گہرائیوں میں ڈوبنے کے قریب ہے، جہاں نہ کوئی قومی وقار باقی رہے گا اور نہ کوئی خودمختار معیشت۔ یہ صورتحال ایک طرح کا المیہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہاں تک پہنچے کیسے؟
ہمارے حکمران جنہیں عوامی امانتوں کا پاسبان بنایا گیا تھا، انہوں نے اپنی ذاتی اغراض و مفادات کی خاطر ان قومی اداروں کو پستیوں میں دھکیل دیا اور ان کی بنیادوں کو متزلزل کرکے رکھ دیا۔ ان کی ترجیحات میں نہ تو عوام کی بھلائی تھی اور نہ ہی ملک کی ترقی۔ قومی خزانہ لوٹ مارکی آماجگاہ بن چکا ہے، جہاں سیاستدان اور بااختیار افراد نے عوامی وسائل کو اپنی جیبوں میں منتقل کرنے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ لوٹ مار اس قدر منظم انداز میں ہوتی ہے کہ ہر آنے والی حکومت سابقہ حکمرانوں پر الزامات لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور پھر اسی کہانی کو دہرانا شروع کردیتی ہے، اور پھر ترمیمی بل پیش کرکے اداروں کو بے دست و پا کرکے اپنی کرپشن کا جشن مناتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قومی اثاثوں کو جو کبھی ترقی کی نشانیاں تھے، اب قرضوں کی ادائیگی کےلیے گروی رکھ دیا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اب ہماری پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں اور ہمیں یہ یقین دلایا جارہا ہے کہ ان اثاثوں کو بیچنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اگر آج ہم ان اثاثوں کو بیچ کر قرضوں کی ادائیگی کر بھی دیں تو کل ہم کس پر انحصار کریں گے؟ جب ادارے بیچ دیے جائیں گے، تب ملک کہاں کھڑا ہوگا؟
آج کے حالات میں سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کے خواب اور ان کی امیدیں بھی دو آنے کے مول بیچی جا رہی ہیں۔ جن اداروں کو عوام کی خدمت کےلیے بنایا گیا تھا، آج وہ انہیں سہولتیں دینے سے قاصر ہیں۔ تعلیم کا شعبہ، صحت کا شعبہ، اور دیگر بنیادی سہولتیں سیاستدانوں کی کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود ان کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ نتیجتاً، ہمارے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں، بیمار علاج سے محروم ہیں، اور عوام بنیادی ضروریات کےلیے ترس رہے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب کا فقدان ہے۔ جو بھی آتا ہے، وہ بغیر کسی خوف کے کرپشن میں ملوث ہوجاتا ہے، اور جب عوام ان سے حساب طلب کرتے ہیں تو یہ حکمران ایک دوسرے پر الزام لگا کر خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احتساب کا عمل صرف نعروں اور وعدوں کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، اور یوں عوام کے دل میں یہ خیال جڑ پکڑ چکا ہے کہ شاید انصاف ان کےلیے میسر نہیں۔ جب تک ہم حقیقی معنوں میں ان سیاستدانوں کا کڑا احتساب نہیں کریں گے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں نہیں لائیں گے، اس وقت تک تبدیلی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔
اب وقت آگیا ہے کہ قوم بیدار ہو اور ان حکمرانوں سے جواب طلب کرے جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا۔ عوام کو سوچنا ہوگا کہ کب تک وہ ان لٹیروں اور نااہل حکمرانوں کو اپنے سروں پر برداشت کریں گے؟ کب تک ہم اس جبر اور بدعنوانی کے نظام کا حصہ بنے رہیں گے؟ ہمیں ان لوگوں سے حساب لینا ہوگا جنہوں نے عوامی دولت اور قومی اداروں کو لوٹ کر اپنی دولت میں اضافہ کیا۔ قوم کو سمجھنا چاہیے کہ صرف ووٹ ڈالنا کافی نہیں، بلکہ اُن لوگوں کو منتخب کرنا ضروری ہے جو واقعی عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
اگر ہم ارادہ کریں تو یہ قوم ایک تابناک سحر کا نظارہ کرسکتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے گوہرِ نایاب موجود ہیں جو صداقت و اخلاص کی دولت سے مالا مال ہیں اور جن کے دلوں میں وطن کی سربلندی کا بے پناہ عزم و حوصلہ ہے۔ ان کی محنت و خلوص کے چراغ اس ملک کی تاریک راہوں کو منور کرسکتے ہیں۔ ،مگر یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ ان لوگوں کو آگے آنے کا موقع دیں۔ ہمیں ایسے لوگوں کو سیاست میں لانا ہوگا جو واقعی ملک و قوم کے درد کو سمجھتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ قوم ایک عزم کرے کہ وہ ان لوگوں کو اقتدار میں لائے گی جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں گے۔
’’ہر مال بکے گا دو آنے‘‘ محض ایک طعنہ نہیں بلکہ وہ الم ناک حقیقت ہے جو ہمیں اپنی قومی غیرت، اپنے وسائل، اور اپنی پہچان کے زوال کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اگر آج ہم نے اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اعمال پر خاموشی اختیار کرلی تو کل ہمارے ہاتھ میں سوائے مایوسی اور کفِ افسوس ملنے کے کچھ نہ ہوگا۔ اب وہ وقت آچکا ہے جب ہمیں قومی ورثے کی حفاظت، خوابوں کی تعبیر، اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کےلیے بیدار ہونا ہوگا اور ان حکمرانوں سے جواب طلبی کرنی ہوگی، جنہوں نے اس پاک وطن کو قربان گاہ سمجھ رکھا ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے قومی اثاثے کوڑیوں کے بھاؤ نیلام ہوں گے اور ہم حسرتوں کی بھاری گٹھڑی کندھوں پر لادے تماشائے عبرت بن کر زمانے کے حوالے کردیے جائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link