اگر دیکھا جائے تو آج کل شہباز شریف ہی ملکی سیاست کو چلا رہے ہیں۔ وہ نہ صرف وزیر اعظم ہیں بلکہ انھوں نے سیاسی میدان میں بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہوئی ہے۔ اسی لیے بانی تحریک انصاف بھی ان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہم آج کے اس کالم میں بانی تحریک انصاف اور شہباز شریف کے درمیان 2018سے جاری سیاسی معرکے کا جائزہ لیں گے۔دیکھیں گے کہ دونوں نے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کو کیسے شکست دی ہے۔ کہاں کون جیتا ہے اور کہاں کون ہارا ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 2018تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست شہباز شریف کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ضرور تھے لیکن مرکز کی سیاست میں ان کا زیادہ عمل دخل نہیں تھا۔ ان کی مشاورت تو رہتی تھی لیکن وہ مرکز سے دور تھے اور اکثر بہت سے کام ہونے کے بعد انھیں علم ہوتا تھا۔ لیکن 2018کے انتخابات میں جب میاں نواز شریف نا اہل تھے اور انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکتے تھے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈور شہباز شریف کے ہاتھ میں آگئی۔
اب تو یہ بات سب کو معلوم ہے کہ 2018 کے انتخابات کے وقت بھی اسٹبلشمنٹ کی پہلی ترجیح شہباز شریف ہی تھے۔ بانی تحریک انصاف اس وقت پہلی ترجیح نظر ضرور آتے تھے لیکن ایسا تھا نہیں ان سے حکومت سازی پر مذاکرات بھی ہوئے لیکن بات بن نہیں سکی۔ انھوں نے میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جو میں آج سمجھتا ہوں ایک درست فیصلہ تھا۔ شہباز شریف نے پلیٹ میں سامنے پڑے اقتدار کو لات مار دی۔
بانی تحریک انصاف کو علم تھا کہ ان سے پہلے اقتدار نے شہباز شریف کے دروازے پر دستک دی تھی۔ ان کے انکار کے بعد اقتدار ان کو ملا ہے۔ وہ شہباز شریف کا چھوڑا ہوا اقتدار لے رہے ہیں۔ اسی لیے 2018سے شہباز شریف اور بانی تحریک انصاف کے درمیان ایک بڑی سیاسی جنگ کا آغاز نظر آتا ہے۔ بانی تحریک انصاف جنھوں نے نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ انھوں نے وزیر اعظم بنتے ہی پہلی گرفتاری شہباز شریف کی کروائی۔
بانی تحریک انصاف کو شہباز شریف بطور قائد حزب اختلاف بھی قبول نہیں تھا۔ بانی تحریک انصاف کو علم تھا کہ شہباز شریف بطور قائد حزب اختلاف ان کے لیے زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے بانی تحریک انصاف نے شہباز شریف اور ان کے خاندان کو مائنس کرنے پر کام شروع کر دیا۔ حمزہ شہباز کو گرفتار کیا گیا ، سلمان شہباز پر مقدمات بنائے گئے حتیٰ کے شہباز شریف کی بیٹیوں پر بھی مقدمات بنائے گئے۔ ساری کوشش تھی کہ شہباز شریف کو مائنس اور کرش کر دیا جائے۔
شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جاتے تھے حالانکہ قومی اسمبلی میں وہ قائد حزب اختلاف تھے۔ بانی تحریک انصاف کو علم تھا کہ جب شہباز شریف قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کرمیثاق معیشت کی دعوت دیتا ہے تو وہ میثاق معیشت کی بات مجھے نہیں اسٹبلشمنٹ کو کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل میثاق معیشت میں ہے اور شہباز شریف کی بات وہاں سنی اور سمجھی بھی جا رہی تھی۔ یہی بات بانی تحریک انصاف کی پریشانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
بانی تحریک انصاف کا تو خیال تھا کہ اس نے ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کی ایسی لڑائی کروا دی ہے کہ اب نسلوں تک صلح نہیں ہو سکے گی۔ لیکن شہباز شریف تو لڑائی کو روز بروز صلح میں بدل رہا تھا۔ اسی لیے شہباز شریف کو بار بار گرفتار کیا جاتا تھا کہ وہ مفاہمت کی سیاست سے بانی تحریک انصاف کو پریشان کرتا تھا۔ بانی تحریک انصاف حقیقت میں شہباز شریف سے خوفزدہ تھا۔
پھر شہباز شریف نے کھیل پلٹ دیا، شہباز شریف نے اقتدار بانی تحریک انصاف سے چھین لیا جیسے بانی تحریک انصاف نے اقتدار ن لیگ سے چھینا تھا۔ ویسے ہی شہباز شریف نے اقتدار بانی تحریک انصاف سے چھین لیا۔ آپ دیکھیں عدم اعتماد کے بعد سے شہباز شریف نے بانی تحریک انصاف کو ہر محاذ پر شکست دی ہے۔ بانی تحریک انصاف کا خیال تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں گے تو شہباز شریف حکومت چلا ہی نہیں سکیں گے، نظام گر جائے گا۔
شہباز شریف نے تحریک انصاف کے استعفوں کو ان کے گلے کا پھندا بنا دیا۔ بعد میں تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف استعفیٰ واپس لینے کے لیے منتیں کرتے رہے، عدالتوں میں درخواستیں دیتے رہے کہ ہم واپس آنا چاہتے ہیں لیکن شہباز شریف نے واپسی کے دروازے بھی بند کر دیے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں تحریک انصاف کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس آج مشکلات سے پارٹی کو نکالنے کے لیے کوئی شہباز شریف نہیں ہے۔ جو ہاری ہوئی بازی کو جیت میں بدل دے۔ جو اقتدار کو انکار کر کے بھی دوبارہ اقتدار کو گھر تک لے آئے۔ آج کے دن تک شہباز شریف اور بانی تحریک انصاف کے درمیان 2018سے شروع ہونے والے سیاسی معرکے میں شہباز شریف نے بانی تحریک انصاف کو ہر موقع پر شکست دی ہے۔ اسی لیے بانی تحریک انصاف کے بیانات میں شہباز شریف کے لیے آج کل زہر زیادہ ہے۔