3

ایک چہرے پر… – ایکسپریس اردو

’’شکل سے تو وہ بالکل بھی ایسا نہیں لگتا کہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہو گا!!‘‘’’ بڑی بد زبان اور بد لحاظ بہو ہے ان کی۔‘‘ ’’ ان کی بیٹی جابر حکمران کے نام سے مشہور ہے، کام پرلوگ اسے ہٹلر کہتے ہیں۔‘‘’’ ہماری اماں دنیا کی سخت ترین عورت ہیں۔‘‘ ’’ ہمارے ابا جیسا ظالم کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

’’ ہماری ٹیچر اتنی بد مزاج ہیں کہ اس سے زیادہ بد مزاج عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی۔‘‘ ’’ میری بہن کو میرے ساتھ لڑنے کے سوا کوئی اور کام نہیں ہے۔‘‘’’ ہمارا بھائی تو ہر وقت والدین سے ہماری شکایتیں لگاتا رہتا ہے ۔‘‘’’ میرا ماتحت تو بالکل نکما، نالائق اور کام چور ہے۔‘‘ ’’ ہمارا بیٹا تو بالکل جورو کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔‘‘

اس طرح کے فقرے ہم اپنے ارد گرد ہر روز اور ہر جگہ سنتے رہتے ہیں، یہ کئی لوگوں کے بارے میں بھی ہو سکتے ہیں ، ایک ہی شخص کے بارے میں اس میں سے ایک، دو یا اس سے زائد بیانات بھی ہو سکتے ہیں ۔ ان میں کسی حد تک حقیقت بھی ہو سکتی ہے اور زور بیان ہونا بھی ممکن ہے ۔ ایک ہی عورت بد زبان بہو، کام پر ہٹلر، سخت ترین ماں، بد مزاج ٹیچر اور لڑنے والی بہن بھی ہو سکتی ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی۔

ہو سکتا ہے کہ وہ ایک بہت فرمانبردار بیٹی، وفادار بیوی اور دوست ہو۔ اسی طرح بیوی پر ہاتھ اٹھانیوالا شوہر، باپ کے روپ میں ظالم کہلانیوالا، بہنوں کی شکایتیں لگانے والا اور ایک نکما اور نالائق ماتحت بھی کسی نہ کسی رشتے یا حیثیت میں اچھا تو ہو گا، اچھا بیٹا ہو گا، دوست ہو گا… انسان کی نفسیات بھی بہت عجیب ہے اس میں کئی طرح کے تضادات ہیں، ہر لحاظ سے مکمل ذات تو صرف اللہ تعالی ہی کی ہو سکتی ہے۔

انسان دن رات میں کئی چولے بدلتا ہے، رشتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان کبھی بھی ہر رشتے سے ایک جیسا انصاف نہیں کر سکتا۔ جتنی بھی کوشش کرے، ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتا۔ ماں کو خوش کرو تو بیوی ناراض، بہن کو خوش کرو تو بھائی پریشان، بیٹی کا خیال کرو تو بیٹے کی نظروں میں ظالم اور اچھے دوست بنو تو گھر والے ناراض، مر بھی جاؤ تو ہر کسی کو خوش کرنا ممکن نہیںہوتا۔ کوئی بھی ہم میںسے کامل شخصیت کا حامل نہیں ہو سکتا مگر ہر رول میں ایک جیسا اچھا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

انسان جب بچہ ہوتا ہے تو اس کی شخصیت ایک صاف سلیٹ کی طرح ہوتی ہے، اس کا سب سے پہلے ماں باپ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور گھر میں رہنے والے باقی افراد سے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں نئے رشتوں کا اضافہ ہوتا ہے، اس کے بہن بھائی، پھر اسکول اور باہر کے دوست، کالج کے دوست، خاندان کے دیگر بچے۔ جوں جوں اس کی عمر بڑھتی ہے اور وہ نئے بندھنوں میں بندھتا ہے تو اس کا رشتہ شوہر، داماد اور پھرباپ کا بن جاتا ہے۔

اسی طرح کے رشتوں کا سلسلہ عورتوں کی زندگیوں میں بھی ہوتا ہے۔ جب انسان ایک اچھا بچہ ہوتا ہے تو وہ واقعی بچہ ہوتا ہے، ذرا بڑا ہوتا ہے تو ارد گرد کا ماحول اس کی شخصیت کو تبدیل کرتا ہے اور بسا اوقات گستاخ، شرارتی یا بد تمیز بچہ بھی بن جاتا ہے۔ بہن بھائی آتے ہیں تو یا وہ ان سے محبت کرتا ہے یا حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے، حسد میں مبتلا ہونے کا اہم سبب اس سے پیار کرنے والوں کی توجہ بٹ جانا ہوتا ہے ۔ جو چیزیں پہلے پہل صرف اس کی ملکیت ہوتی ہیں، انھیں بانٹنے والے آجاتے ہیں تو اس میں اور ان نئے آنیوالوں میں ان دیکھی فصیل کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس کی ملکیت اس کے والدین، اس کے کھلونے ، اس کا کمرہ اور اس کے دیگر رشتے ہوتے ہیں۔

ایک ہی ماں باپ کے بطن سے جنم لینے والے دو ، چار ، چھ یا دس بچے بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ایک انسان اچھا ہے تو وہ ہر روپ میں اچھا نہیں ہو سکتا، اگر وہ اچھا بھائی، بیٹا، باپ، شوہر اور دوست ہے مگر اچھا داماد نہیں ہے تو یہ جاننا اہم ہے کہ وہ اچھا داماد کیوں نہیں ہے۔

اگر وہی شخص اچھا داماد بھی ہے مگر اس کی بیوی کی نظر میں وہ اچھا شوہر بھی نہیں ہے تو بھی سوال اٹھتا ہے کیا اس کی بیوی اچھی ہے یا اس کے ساتھ اچھی ہے؟ شوہروں کے بارے میں کہاوتیں مشہور ہوتی ہیں مثلا مرد کو دوسرے کی بیوی اور اپنا بچہ ہمیشہ اچھا لگتا ہے؟ یہ زیادہ تر لطیفے بیویوں پر ہی کیوں بنتے ہیں؟





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں