6

تھل ايكسپریس کا جادوئی سفر

آج کے جدید دور میں آپ راولپنڈی اسلام آباد سے ملتان بذریعہ موٹروے سات گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں جبکہ تھل ایکسپریس جو کہ راولپنڈی سے صبح سات بج کر بیس منٹ پر چل کر سولہ گھنٹے میں ملتان تک اپنا سفر مکمل کرتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض دفعہ یہ اور بھی تاخیر کا شکار ہوجائے۔

یہ بتانے کا مقصد ان سیاحوں کو دعوت دینا ہے جن کو ریل کے سفر سے عشق ہے، جن کے چہروں کو ریل کی مٹی اور دھول کچھ نہیں کہہ سکتی، جنہیں ریل کے انجن سے نکلنے والا کالا دھواں پسند ہے، جنہیں کوئی پریشانی نہیں کہ یہ ٹرین کب اپنی منزل پر پہنچے گی۔ جنہیں ہر اسٹیشن پر اتر کر ٹرین کی سیٹی سننا اور پھر ٹرین میں سوار ہونا پسند ہے، جنہیں ریل کی رفتار سے کوئی غرض نہیں کہ یہ آہستہ کیوں چل رہی ہے، کیونکہ ان کو پسند ہے ريل کا سفر اور گزرتے مناظر۔ جن كو پسند ہے پہاڑوں، سرنگوں، دریاؤں سے گزرنا۔ یہ سفر ایڈونچر پسند لوگوں کےلیے ہے نہ کہ آرام پسند افراد کےلیے۔

پوٹھوہار، ہزارہ، سرائیکی، پنجابی ریجن سے گزرتی ريل طرح طرح کی ثقافت کا پتہ بتاتی ہے۔ ہم شہری لوگ جو سمجھتے تھے کہ ٹوپی والا برقعہ متروک ہوچکا ہے لیکن وہاں سے گزر کر پتا چلا کہ ابھی بھی ٹوپی والا برقعہ پہنا جارہا ہے۔ ابھی بھی لوگ بغیر بجلی، گیس کے زندگی گزار رہے ہیں۔ ابھی بھی کچھ علاقوں میں پکی سڑک نہیں، ابھی بھی ريلو ے ٹریک کے ساتھ انگر یزوں کی بنائی ہوئی چوکیاں موجود ہیں۔ ابھی بھی ريل میں ایک صدی پرانا نظام ہے۔

لوکل ٹرین میں لوگوں سے ہم آہنگی جلد ہوجاتی ہے۔ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں، ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے، زندگی کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ تھل ايكسپریس پر سفر کرنے کےلیے ہم تین دوستوں نے ساہیوال سے اسلام آباد پہنچ کر رات کا قیام کیا۔ ہماری لوکیشن سے گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن نزدیک تھا اور تھل ايكسپریس کا ٹائم 7:38 کا تھا، اس لیے راولپنڈی کے بجائے گولڑہ شریف اسٹیشن کےلیے ان ڈرائیو سے گاڑی بک کی جو کہ دو منٹ میں گیٹ کے باہر تھی۔ سات بجے ہم گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے۔ اس ریلوے اسٹین کا شمار بھی پاکستان کے خوبصورت ترین ریلوے اسٹیشنوں میں ہوتا ہے اور اس ریلوے اسٹیشن کو میوزیم کی شکل بھی دی گئی ہے۔ صبح سویرے میوزیم بند تھا اس لیے اطراف میں موجود ریلوے کے اسٹيم انجن اور بوگیوں کو دیکھ کر وقت گزارنے لگے۔

گولڑہ شریف ریلوے اسٹیشن پر طلوع افتاب اور سیکڑوں سال پرانے برگد کے درختوں پر پرندوں کی چہچہاٹ ایک سحر انگیز منظر تھا۔ راولپنڈی ريلوے اسٹیشن سے ہمارے ایک اور دوست نے بھی ہمیں جوائن کرنا تھا جو کہ تھل ایکسپریس پر سوار ہوچکا تھا۔

فوٹو گرافی کے دوران اسٹیشن ماسڑ کا بندہ بار بار ہمیں اندر بلانے کا پیغام دے رہا تھا۔ آخر ہم نے اس کی بات سننے کےلیے اسٹیشن ماسٹر کے آفس کا رخ کیا تو وہی پرانی باتیں سننے کو ملیں کہ سیاحوں کےلیے بھی كيمرے سے فوٹو گرافی بغیر اجازت نامہ منع ہے۔ نجانے ان لوگوں کی سوچ کب بدلے گی کہ موبائل سے بنا سکتے ہیں كيمرے سے نہیں۔ اتنی دیر میں ہماری ريل پليٹ فارم پر پہنچ چکی تھی اور اس کی آخری بوگی میں موجود دوست کی نگاہیں ہمیں تلاش کر رہی تھیں۔ ريل رکتے ہی ہم آخری بوگی کی طرف لپکے اور اپنے ہم سفر سے بغل گیر ہوئے۔ فیس بک فرینڈ سے یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔

جیسے ہی ريل نے چلنا شروع کیا تو ہم نے اپنی آخری بوگی کا پچھلا دروازہ کھول دیا اس دروازے سے خوبصورت منظر اور ريل کی پٹری دیکھ کر ہم سب کے چہرے کھل اٹھے۔ اس منظر کو دیکھ کر ہم آخری بوگی کے لگنے والے جھٹکے بھی بھول گئے۔

اب ریل کے سفر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں کا نہ ركنے والا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ریلوے اسٹیشنوں پر اسٹاپ کرتی ہوئی تھل ایکسپریس اٹک ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو وہاں پر ہمارے بہت ہی پیارے سیاح دوست عارف بھائی ہمیں ملنے کےلیے موجود تھے۔ اٹک کے پہاڑی سلسلوں اور ريل کی سرنگوں کو پروموٹ کرنے میں عارف بھائی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے ہمیں چائے اور مونگ پھلی پیش کی۔ جیسے ہی ریل نے سیٹی بجائی عارف بھائی سے مل کر ہم ريل میں دوبارہ سوار ہوگئے۔ اب ہماری بوگی میں ایک بزرگ بھی اپنے بکرے کے ساتھ سوار ہوچکے تھے۔

جیسے ہی ريل اٹک سے نکلی تو ہم نے بوگی کے پچھلے دروازہ کا رخ کیا کیونکہ اب اس سفر کا سب سے خوبصورت منظر شروع ہونے جارہا تھا۔ ريل اب ندی نالوں سے گزرتی کالا چٹا کے پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوچکی تھی۔ انجن سے نكلتا کالا دھواں اور پٹری کے اردگرد بلند ہوتے پہاڑوں کے مناظر میں ہم کھو چکے تھے۔ ریل پہلی سرنگ میں داخل ہوچکی تھی۔ کالا چِٹا پہاڑوں کی سرنگ سے گزرتی ہوئی ریلوے کی آخری بوگی میں بیٹھنا ایک جادوئی تجربہ ہے۔ جیسے ہی ٹرین سرنگ کے تاریک دل میں داخل ہوتی پیچھے رہ جانے والی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑتی جاتی اور ہر جانب ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ سرنگ کے اندر کی گھنی تاریکی، ٹرین کے پہیوں کی گونج اور دھندلے روشنی کے جھماکے ایک منفرد احساس پیدا کر رہے تھے۔

جیسے ہی ٹرین سرنگ سے باہر نکلتی ہے، منظر اچانک بدل جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والی سرنگ کی محرابی ساخت اور اس کے اردگرد کے پہاڑ، دھوپ میں نہاتے ہوئے شاندار تصویر پیش کرتے ہیں۔ آخری بوگی سے نظر آتا ہوا پیچھے کا منظر، لمبی پٹریوں کا سانپ کی مانند بل کھاتا ہوا راستہ، اور دور افق تک پھیلا ہوا سبزہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی مصور نے اپنے تخیل کے کینوس پر رنگ بکھیر دیے ہوں۔

آخری بوگی سے دیکھے جانے والے مناظر میں ایک الگ سی خاموشی اور سکون چھپا ہوتا ہے۔ کالا چِٹا پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے یہ منظر ایک یادگار تجربہ تھا۔ کالا چٹا پہاڑی کی آخری سرنگ ختم ہوتے ہی ريل کی رفتار کم ہونا شرو ع ہوگئی اور ريل ان سرنگوں کے دہانے کے قریب خوبصورت ريلوے اسٹیشن جھلار کے سامنے رک گئی۔ ہم نے بھی جلدی جلدی اتر کر چند تصاویر بنائیں تو ساتھ ہی ريل نے چلنے کےلیے سیٹی بجادی۔ اس ريلوے اسٹیشن پر ريل کے رک کر چلنے کی وجہ مسلسل بل کھاتی پٹریوں سے آہستہ سے گزرنا تھا۔

پہاڑی راستوں اور بل کھاتی ریلوے لائن کی وجہ سے ریل کی رفتار 40 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ ہم کبھی ریل کی کھڑکی سے اردگرد کے مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تو کبھی ٹرین کے دروازے کا رخ کرتے اور جیسے ہی ریل کسی اسٹیشن پر رکتی تو اس اسٹیشن پر اتر کر اس کی تختی کے ساتھ فوٹو بنواتے۔

اس ٹریک پر موجود ریلوے اسٹیشنوں کی حالت کافی ابتر تھی۔ دوپہر کو ایک بجے تھل ایکسپرس داؤد خیل ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔ اب پہاڑی سلسلہ ختم ہوچکا تھا اور پنجاب کا میدانی علاقہ شروع تھا۔ راستے میں ہم نے جنڈ اسٹیشن کے مشہور پکوڑوں اور روٹی کے ساتھ بھوک مٹائی اور کندیاں ریلوے اسٹیشن سے چائے پی۔

شام ہونے کو تھی اور ریل تھل کے علاقے میں داخل ہوچکی تھی۔ ریل کی پٹری کے اردگرد ریتیلی زمین اور غروب ہوتا سورج خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ جیسے ہی ریل بھکر ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو شام کا اندھیرا اتر آیا۔ اب ہمارا یہ سفر رات کی تاریکی میں ملتان ریلوے اسٹیشن تک جاری رہا۔ ہم دوست اس سفر کے ہر لمحہ اور ہر ریلوے اسٹیشن سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ تھل ایکسپریس کا یہ سفر واقعی ایک جادوئی اور سحر انگیز سفر تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں