1

اولادِ نرینہ کی خواہش – ایکسپریس اردو

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ آج ہم دین اسلام کے آنے کے بعد لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی موت کے گھاٹ تو نہیں اتارتے، لیکن ان کا درجہ عملاً ہمارے ہاں کم تر ہی رہ گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا لوگ اولاد نرینہ کی خواہش کیوں کرتے، اور کیوں لوگ بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں۔

جب کہ اگر بیٹے ہی ہوں تو بیٹیوں کی خواہش اس شدت سے نہیں ہوتی، تبھی تو اس کے لیے مختلف قسم کے عمل اور ٹوٹکے بتائے جاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ آخر اولاد نرینہ کے لیے ہی اتنے جتن کیوں کیے جاتے ہیں؟ کیا ہمارے معاشرے میں لڑکی غیر اہم اور بے وقعت ہے یا اولادِ نرینہ کی پیدائش عورت کے لیے کسی قسم کی جیت یا رشتے کی مضبوطی کی ضمانت ہے؟

ہمارا معاشرہ اولادِ نرینہ کی خواہش میں دیوانہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت کے ہاں ایک کے بعد دوسری یا تیسری بیٹی پیدا ہونے کی صورت میں یا تو طلاق یا پھر شوہر کی دوسری شادی کی تلوار لٹکنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں عورت کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کس مقام پر ہو گی؟

چلیے ٹھیک ہے آپ کسی بھی وجہ سے اگر بیٹے کی خواہش کر رہے ہیں تو ایسا کرنا آپ کی صوابدید ہے، لیکن بیٹا نہ ہونے کی صورت میں صرف عورت کو ہی قصوروار ٹھہرانا، رشتے میں سرد مہری آجانا یا اذدواجی تعلق جمود کا شکار ہوجانا کہاں کا انصاف ہے؟

دورانِ تعلیم مجھے لگتا تھا کہ لڑکیوں کے لیے ہمارے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی آرہی ہے، لیکن گزشتہ دو روز ایک ہی طرز کی چار وارداتوں نے مجھے اپنی سوچ اور نظریہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے واقعات بلوچستان، میانوالی، پشاور میں پیش آئے۔

جہاں کسی نے تیسری بیٹی کی پیدائش پر بیوی کو قتل کر دیا، تو کہیں بیٹے کی خواہش میں پاگل باپ نے سات دن کی بچی کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ستم ظریفی تو یہ کہ پہلے سے بیٹے ہونے کے باوجود مزید بیٹوں کی خواہش میں خاتون نے پیر صاحب کے حکم پر سر میں کِیل بھی ٹھکوا لی۔

اولاد کی خواہش ہر جوڑے کو ہوتی ہے، لیکن بیٹے کی خواہش ہمارے معاشرے میں کچھ زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے۔ شادی شدہ خواتین سے سب سے پہلے ان کے بچوں کی تعداد اور دوسرا سوال کتنے بیٹے کتنے بیٹیاں ہیں، ہوتا ہے۔ بیٹوں کی مائیں ہی نہیں باپ بھی بڑے فخر سے بیٹوں کی تعداد بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب کہ بیٹیوں کے والدین کو لوگ بیٹوں کی پیدائش کے نسخے، ٹوٹکے، دوائیں، دْعائیں اس کی اہمیت اور افادیت پر لیکچر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چاہے خود ان کی اپنی پانچ چھے بیٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔

سائنس چاہے کچھ کہہ لے یا ثابت کرے، لیکن ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے افراد بھی اولاد نرینہ کے لیے ایسے ایسے ٹوٹکے اور نسخے بتاتے اور استعمال کرتے نظر آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

یاد رہے کہ ماں کا وجود بچے کا پہلا گھر ہوتی ہے، اس لیے ماں کی ذہنی اور جسمانی صحت بچے کی نشوو نما پر براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

عام طور پر بہت سارے ایسے عوامل ہوتے ہیں، جو کہ حمل کے دوران خواتین کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر سکتے ہیں اور ان عوامل میں سب سے زیادہ اہم بیٹے کی ماں بننے کی خواہش یا ڈر ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ زیادہ تر خواتین اولاد نرینہ کی پیدائش کے حوالے سے سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔حمل کے ابتدائی دنوں میں ذہنی دباؤ میں مبتلا خواتین میں بہت ساری جسمانی اور نفسیاتی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ جس کا براہِ راست اثر بچے کی نشو ونما پر پڑتا ہے۔

بچے کی پیدائش عموماً خواتین کے لیے خوشی کا باعث ہوتی ہے، لیکن حمل کے دوران لڑکے کی پیدائش کی خواہش کے باعث مسلسل تناؤ یا لڑکے کا نہ پیدا ہونا خواتین کے لیے مختلف قسم کے تناؤ جیسا کہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ بھی باعث بنتا ہے۔

ہمارے جیسے معاشروں میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے بیٹے بڑھاپے میں والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان کا سہارا بنتے ہیں اور ان کے مالی معاملات کے نہ صرف امین بھی ہوتے ہیں، بلکہ خاندانی جائیداد اور دولت میں اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

بیٹے خاندانی نسب کو جاری رکھتے ہیں، جب کہ بیٹیوں کی شادی کسی دوسرے گھر میں کر دی جاتی ہے اور ساتھ ان کو جہیز بھی دینا پڑتا ہے۔

بیٹے خاندان کی عزت اور وقار کا دفاع کرتے ہیں، جب کہ بیٹیوں کو دفاع اور تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے( جو کہ خاندان پر بوجھ ہوتا ہے)۔

جب کہ سائنس کہتی ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں میں پیدائشی پیچیدگیوں کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان شرح اموات کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ لڑکوں کو قبل از وقت پیدائش، دم گھٹنے، پیدائشی نقائص اور دل کی بے ضابطگیوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حمل کی مدت ختم ہونے سے پہلے لڑکوں میں پیدائش کے دوران پیچیدگیوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

اگرچہ لڑکے پیدائش کے وقت لڑکیوں کے مقابلے میں اوسطاً بھاری ہوتے ہیں، لیکن پیدائش کے وقت وہ جسمانی طور پر کم میچور ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ان کے جسمانی افعال میں تاخیر کا خطرہ ہوتا ہے، جیسے کہ پھیپھڑوں کی نشوونما وغیرہ۔

اس ہی طرح لڑکیوں کے مقابلے میں  لڑکوں کو متعدد انفیکشن جیسی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق لڑکوں کو انفیکشن جیسا کہ ملیریا، سانس کے انفیکشن، تشنج اور اسہال کی بیماریوں کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

لہٰذا ضروری نہیں کہ خاندانی حسب نسب کو بڑھانے کے علاوہ آپ کا بیٹا آپ کے خوابوں کو پورا کرے۔ اللہ سب کے بچوں کو اپنے ماں باپ کے لیے خوشی کا باعث بنائے، لیکن ہو سکتا ہے آپ کے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا وہ شوق نہ ہو جو آپ کی بیٹی کو ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ اولاد نرینہ جس کے لیے آپ نے ترقی اور کام یابی کے جو خواب سجائے ہوں وہ آپ کی بیٹی پایہ تکمیل تک پہنچادے، تو پھر لڑکا اور لڑکی کی تفریق چھوڑیں اور اولاد میں برابری کو معیارِزندگی بنائیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں