1

مہمان مہینے کے روز وشب

 ’منظم  زندگی‘ کا درس دینے والے اس مہینے کے سبق سارے سال یاد رکھنے چاہئیں ۔ فوٹو : فائل

 ’منظم  زندگی‘ کا درس دینے والے اس مہینے کے سبق سارے سال یاد رکھنے چاہئیں ۔ فوٹو : فائل

 لاہور: ’’اٹھو جاگو سونے والو سحری کا وقت ہوگیا ہے‘‘ اور یہ آواز سنتے ہی گلی کوچوں میں لوگوں کے بند دروازے و کھڑکیاں کھلنی شروع ہوجاتیں۔ سونی گلیاں جاگ اٹھتیں۔ نیند سے ہلکورے لیتا ہوا پل بھر میں پورا محلہ پوری خلقت یوں جاگ اٹھتی کہ گویا سوئی ہی نہ ہو، ہر کوئی یوں اٹھ بیٹھتا کہ لگتا تھا دن چڑھ گیا ہے۔

گھر گھر جلتی ہوئی روشنی اعلان کرتی کہ سب ہی سحری کے لیے اٹھ گئے ہیں اور جس گھر اندھیرا ہوتا وہاں جاکر فوری پوچھا جاتا ’’خیریت آج آپ کے گھر لائٹ نہ جلی، اور یوں جو کوئی سحری کے وقت خواب غفلت کی وجہ سے اٹھ نہ پاتا۔ وہ بھی اٹھ کر روزہ رکھنے کی سعادت اور اس حدیث کے مطابق سحری کی برکات حاصل کر لیتا ہے ’’کہ سحری میں برکت ہے اسے ہرگز مت چھوڑو۔ اگر کچھ نہیں تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے۔

کیا خلوص اور پیار تھا، لوگ کیسے آپس میں پیار و محبت کی ڈوروں سے بندھے ہوئے تھے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے۔ گھروں کے فاصلے دور بھی ہوتے لیکن دلوں کے فاصلے اتنے کم کہ چھینک آنے پر بھی بھاگے چلے آتے۔ وہ زمانہ تو عنقا ہی ہوگیا۔ وہ آوازیں وہ لوگ سب گزرے زمانے کی باتیں بن گئیں۔ موبائل، ٹی وی میں گم ہوئیں تو گلیوں میں سناٹا ہوگیا۔

وقت کے انداز بدلے، رنگ ڈھنگ بدلے تو رہن سہن اور ملنے جلنے کا انداز ہی بدل گیا۔ گھروں کی کندھا سے کندھا ملائے دیواریں اونچی ہوئیں، تو دلوں کے فاصلے بھی بڑھ گئے۔ لوگ خود بخود ایک دوسرے سے دور ہوکر اپنے آپ اور اپنی دنیا میں مگن اپنے تک محدود ہو کر رہ گئے اور وہ لوگ جو ان رونقوں کا مظہر تھے محور و مرکز تھے، مان تھے، جان تھے، پہچان تھے بھولی بسری کہانی بن گئے۔

وہ چہرے خواب ہوئے، اونچی ہوتی ہوئی دیواروں نے اپنے پن کا وہ حُسن چھین لیا، جو وقت بہ وقت ایک دوسرے کی خیریت پوچھنے پر مجبور کرتا تھا۔ سادہ سے لوگوں کا سادہ سا رہن سہن، تکلف بناوٹ کی چادر اوڑھ کر اس فطری پن کو نگل گیا، جو اس وقت کے لوگوں کا خاصا تھی، پیار و محبت کی اجنبیت نے لے لی ہے۔

آج تو اپنے ساتھ والے گھر میں بھی کیا ہو رہا ہے کوئی جی گیا یا مرگیا پتا ہی نہیں چلتا۔ وقت کا ستم ہے کہ گئے دنوں کی رونقیں آہستہ آہستہ مفقود ہورہی ہیں۔۔۔ پیارو محبت کے فقدان نے نہ وہ پیار، نہ بے لوث خلوص و محبت۔ وہ ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے اور دوستی کے رشتوں پر قربان ہونے والے لوگ جانے کہاں گئے کہ ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے۔ کبھی تنہا شخص بھی ہجوم میں تھا اور آج اس بھرے ہجوم میں تنہا ہے ۔

رمضان کی وہ برکتیں آج بھی اسی ڈھول کی آواز کو ترستی ہیں جن کے سروں میں نہ جانے کتنے ہی نغمے ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتے اور بٹھاتے تھے ایک دوسرے کی خبرگیری کراتے تھے۔ گئے زمانے کی یہ بازگشت آج بھی اپنے سروں میں لوگوں کے اس پیار کی جھنکار سناتی ہے۔ جو لوگ آپس میں رمضان کی خوشیاں بانٹتے اور خوش ہوتے تھے۔

بچپن کی ان یادوں میں جھولا جھولتے ہوئے یک دم اپنی چار منزلہ حویلی کا منظر یوں دکھائی دیا، جس کے اوپر بڑے سے چوبارے کے سات والی دیوار سے تانک جھانک کر کے منٹوں میں پورے محلے کی خیریت معلوم کرلیتے۔ افطاری کے وقت پکوڑوں کی خوش بو ایک گھر سے دوسرے گھر ایسے پہنچتی کہ جیسے دیکھو بڑی سے ٹرے اٹھائے، دسترخواں یا رومال سے ڈھکی ہوئی کچھ نہ کچھ اٹھائے چلا آرہا ہوتا تھا اور یوں وہ روزے دار کے مساوی ثواب شاید اب اس ڈھب پر پانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

سحری سے شروع ہوا رونقوں کا وہ تصور افطاری تک اپنے عروج کو پہنچ جاتا۔ آج کسی نے افطاری کے لیے کچھ بھجوایا، تو کل اسی برتن میں کچھ نہ کچھ ضرور بھجوایا جاتا ۔ خالی برتن بھجوانا بے برکتی تصور کیا جاتا تھا اور کچھ نہیں تو کھجوریں، جلیبیاں و سموسے تو یوں بانٹے جاتے کہ ہمیں یوں لگتا کہ ہر دن عید اور ہر رات شب برات ہو اور ان رونقوں کو سمیٹتے ہوئے ہم نے بھی جب بچپن میں خوشی خوشی پہلا روزہ رکھا اور اس پہلے روزے پر ’روزہ کشائی‘ بھولتی ہی نہیں۔

ہماری وہ آؤ بھگت کہ خود کو آسمانوںمیں اڑتا ہوا محسوس کرتے، ایسی پرزور خاطر مدارت، گلے میں بڑا سا پھولوں کا ہار، وہ خاندان بھر کا اکھٹا ہونا، ہمیں پیار کرنا، ہاتھوں میں وہ دس، دس کے نئے چمکتے روپے، امی ابو کا بلائیں لینا و دعائیں دینا، بہن بھائیوں کا وہ واری صدقے ہونا، ہمیں تو یوں لگا گویا ہم نے روزہ نہیں رکھا بلکہ کوئی دنیا ہی فتح کرلی ہو۔

انھی بھولی بسری یادوں میں کھوئے، اپنی بیٹی عائشہ کا زوردار نعرہ ’’فرح جلدی اٹھو سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے۔‘‘ ہمیں واپس اپنی دنیا میں لے آیا اور فرح یوں چھلانگ مار کر بستر سے اٹھی کہ گرتے گرتے بچی ’’ ارے بھئی سنبھل کے، ابھی تو سحری ختم ہونے میں ایک گھنٹا باقی ہے۔

میرے تسلی دینے پر فرح مطمئن ہوئی اور دور کھڑی مسکراتی ہوئی عائشہ کو غصے سے گھورا اور ہم دونوں کی نوک جھونک سے محظوظ ہوتے ہوئے سوچنے لگے کہ بفضل خدا گھروں میں آج بھی رمضان کی سحری کی اپنی وہی برکتیں ہیں۔۔۔ سب بدلتے وقت کی کہانیاں ہیں۔ وقت کے ساز بدلے، نئے دورکے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ و سحری کی رونقیں اب یوں شور مچاتی نظر آتی ہیں۔

سحری ’’روزہ کے دل کی وہ دھڑکن‘‘ جو منہ اندھیرے علی الصبح ہر گھر میں سنائی دیتی ہے۔ سوتوں کو یوں جگاتی ہے کہ جسے دیکھو فوری آنکھیں ملتا ہوا ہاتھ منہ دھوتا ہوا، سحری میں حصہ ڈال کر وہ اجرو ثواب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک سب ہی سحری کے لیے ایسے بے چین و بے قرار، خاص طور پر بچوں کا خود بخود اٹھ کر روزہ رکھنے کی ضد کرنا، اس کا بین ثبوت ہے، کہاں تو اسکول بھیجنے کے لیے انھیں اٹھانا مشکل ہوتا ہے، سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں، تب کہیں جاکر آنکھیں کھولتے ہیں اور کہاں ذرا سی لائٹ جلی یا کسی نے غلطی سے کندھا بھی ہلادیا تو فوراً ہی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھتے۔

نہ کوئی حیل و حجت، نہ کوئی رونا دھونا، فوراً ہی سب کی دیکھا دیکھی بستر سے کود، کھانے میں مصروف اور ایک نہیں کبھی تو دو دو پراٹھے بھی بڑی رغبت سے کھائے جاتے ہیں اور وہ بھی کسی بھی چیز کے ساتھ ، سالن، دہی، کباب، جو بھی رکھ دو بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں ورنہ تو عام حالات میں ناشتے پر بھی سو سو بہانے و عذر تراشتے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا اور مائیں دُہائی دیتی رہ جاتی ہیں ’’ارے بھئی کچھ کھاتے پیتے تو جاؤ اور جہاں ہم اذان کی آواز سنتے ہی روزے کی نیت کرتے ہیں وہیں جب سب نماز کے لیے خشوع و خضوع سے کھڑے ہوکر اس کی بڑائی و بندگی کا اقرار کرتے ہیں

نماز نیند سے بہتر ہے تو ہم تو اللہ کی اس شان کے اور سحری کی برکت پر قربان ہوئے جاتے ہیں۔ گھر بھر کا یوں اکھٹے مل کر نماز پڑھنا دیکھ کر رمضان کے تقدس کا احساس دو چند ہو جاتا ہے کہ عام دنوں میں جن اوقات میں دن کے دس بجے تک سوکر صبح کی نماز کی خیرو برکت سے محروم رہتا ہے، وہیں انھی اوقات میں جاگ کر خدا کی رضا کے لیے ایسا سرگرم عمل ہوتا ہے کہ سوئے ہوئے لمحات جاگ اٹھتے ہیں۔ چھوٹے سے لے کر بڑوں تک اس سعادت کو حاصل کرتے ہوئے اس خیرو برکت سے جھولی بھرتے ہیں۔

تقدس کی اس فضا میں جہاں نیند بھک سے اڑجاتی ہے، وہیں خدا کی حمد وثنا کے بعد ہر گھر میں قرآن مجید کی تلاوت سماں باندھ دیتی ہے۔ بچپن میں تو ہم سو جایا کرتے تھے، لیکن امی جان کی تلاوت کی آواز مسلسل کانوں میں پڑتی رہتی، وہ آواز ایسی دل پر نقش ہوئی کہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے، مجال ہے جو نماز کے فوراً بعد لیٹا جائے۔ صبح کاذب کے وقت قرآن کی تلاوت ہمیں جو دلی سکون و راحت اور ہمارے گرد نور و ایمان کا ہالہ بُنتی ہے وہ گیارہ ماہ کی گردش کے دوران ہمارا مقدر نہیں بنتی نہ ہی دنیا کی بھاگ دوڑ میں ہمیں میسر آتی ہے۔

یہ حقیقت ہے آپ کو جو ماحول و فضائے مقدس رمضان کے مہینے میں سحری و افطاری کے وقت نظر آتی ہے وہ باوجود کوشش کے رمضان کے بعد نظرنہیں آتی۔ لاکھ کوشش کرلیجیے، مگر مجال ہے جو کوئی ٹس سے مس ہو جائے اور منہ اندھیرے اٹھنے کی زحمت گوارا کرے۔ واقعی یہ رمضان ہی کا کمال ہے، کیوں کہ عام دنوں میں تو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی۔

واقعی رمضان کی ایک ایک ساعت ایسی برکتوں و سعادتوں والی کہ بقیہ گیارہ مہینوں کی تمام ساعتیں مل کر بھی اس کی ایک ساعت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں اور ساتھ ہی حدیث رسول ﷺ ہمارا یوں احاطہ کرتی ہے کہ ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا ہے، تو میری امت تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی رہے۔‘‘ کیوں کہ خدا کی بے انتہا نعمتوں میں رمضان المبارک فیض و حکمت کا وہ بہتا ہوا دریا ہے جس کی کوئی حد نہیں کنارا نہیں۔

روزہ رکھنے سے، روزہ افطار کرنے تک کے اوقات کار جہاں ہمیں وقت کی پابندی سکھاتے ہیں وہیں بہت سی پابندیوں یعنی بدن کے تمام اعضا پر پابندی کے ساتھ روزہ خورونوش کی پابندی عائد کرکے نہ صرف اسے نفس پر قابو پانا سکھاتا ہے بلکہ اس کے صبر کا بھی وہ زبردست امتحان ہے جسے لفظوں میں قید کرنا مشکل ہے۔

افطار اس کے صبر و ضبط و ایمان کی پختگی کا وہ منظر کہ سحری کا لطف اپنی جگہ مگر اﷲ اسے افطاری کی لذت، اور افطار کے وہ لمحے، سب کا دستر خوان کے گرد بیٹھ کر اذان کی آواز کے لیے بے چین ہونا۔ کھانا پینا انسان کی سب سے بڑی ضرورتیں ہیں اور انھی نعمتوں کے سامنے ہونے پر انھیں ہاتھ نہ لگانا، دن بھر کی بھوک پیاس کے بعد جب آنتیں سوال کر رہی ہوں یا پیاس سے حلق خشک ہو رہا ہو اور سامنے میز پر یا دستر خوان پر طرح طرح کی چُنی گئی ہوں، لیکن اس کے باوجود کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگانا ہی اصل پیغام ہے۔

کون بدنصیب ہوگا جو اپنے رب کے مہمان کی خاطر کچھ دیر کی بھوک پیاس کی زحمت نہ اٹھائے اور تو اور بڑوں کے ساتھ بچوں کی برداشت تو دیکھیے کہ نہ کسی نے روکا نہ ٹوکا کہ یہ مت کھاؤ وہ مت کھاؤ خود ہی ہاتھ روکے اذان کے منتظر ہیں اس وقت عالم تو دیکھیے کہ یہ حال کہ کُلی کرتے وقت بھی احتیاط لازم کہ پانی منہ میں جاتا ہے اور حلق کو پیا سا چھوڑ کر واپس باہر آجاتا ہے کہ کہیں ہم روزے کی جزا سے محروم نہ رہ جائیں ۔

سحری کا وقت جو تہجد کا ہوتا ہے اس میں کچھ دیر پہلے نوافل پڑھئے یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کا کوئی کام، کوئی سوچ آپ کے اور رب کے درمیان حائل نہیں ہوتی اور آپ کی اس وقت کی یکسوئی بخشش کا سبب بن سکتی ہے۔ زندگی اس تیز برق رفتار سفر میں رمضان ہمیں جو روک کر ہدایت، روحانیت، مغفرت توبہ و بخشش کی دعوت دیتا ہے۔ اپنے پورے مہینے سحری و افطاری کی برکتوں و رحمتوں سے جھولی بھرتا ہوا اس کے گرد چکر لگواتا ہوا پورے تیس روزے رکھواتا ہے اور آخری عشرے کی طاق راتوں میں’’شب قدر‘‘ ایک رات میں ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب دلواتا ہے۔

خدائے ذولجلال کا امت محمدیﷺ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں وہ مبارک مہینا عطا کیا جو ہمیں کسی لمحہ بھی ’’خدا کی بندگی‘‘ کے احساس سے غافل نہیں ہونے دیتا۔ قدم قدم پر سحری و افطاری پر ہماری احادیث سے راہ نمائی کرتا ہوا، اس کی بے پناہ رونقوں سے نوازتا ہوا، ہمارا ہرقدم دین کے مطابق اٹھواتا ہے، چلاتا ہے اور آخرت میں سرخرو ہونے کی ساری دعائیں یاد کراکے قرآن مجید کی یاد دہانی کراتے ہوئے سحر و افطار کی ساری برکتیں و رحمتیں و رونقیں اپنے ساتھ سمیت کر لے جاتے ہوئے کہتا ہے ’’رمضان کا مہینا بڑی برکتوں کا ہے پیغام مومنوں کے لیے بڑی رحمتوں کا ہے۔ پروردگار ہم سب کو اس کی فضیلتوں اور سحری و افطاری کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں