1

عورت مارچ! صنفی مساوات کا نعرہ

خواتین اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم و زیادتی پر آواز اٹھانے کا پورا حق رکھتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خواتین اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم و زیادتی پر آواز اٹھانے کا پورا حق رکھتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

صنفی تفریق کے باعث روشن خیالی کا پیکر نظر آنے والے سماج میں بھی خواتین کا شمار کمزور طبقات میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں یہ تناسب سب سے زیادہ ہے۔

دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی خواتین کو مختلف طرح کے تشدد کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے اور بہت سی خواتین سماجی لعن طعن کے ڈر سے خود پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا پاتی ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے، مارنے پیٹنے، زدوکوب کرنے کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اچھرہ بازار میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔ ہمارے سماج میں عورتوں پر تشدد کی سب سے بڑی وجہ ہمارا مخصوص سماجی ڈھانچہ ہے جو عورتوں کو صنفی مساوات کا حق دینے سے انکار کرتا ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کمزور طبقے کی حق تلفی روز کا معمول ہے۔

ہمارا معاشرہ دراصل مجموعی طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے شکنجے میں قید ہے۔ سماجی تفریق کا چلن عام ہے۔ عورتوں کو کمزور طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سطح پر ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ گھر کے اہم فیصلوں میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔ گھر اور باہر قدم قدم پر انہیں روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی شخصیت سے اعتماد چھین لیا جاتا ہے تاکہ عورتیں تمام عمر مردوں کی غلام (باندی) و محکوم بنی رہیں اور مرد ان پر حکومت کرتے رہیں۔
ہمارے یہاں بہت سے عورت مخالف رسم و رواج پرانے زمانے سے رائج ہیں جو عورتوں کو ذہنی کرب سے دوچار کیے رکھتے ہیں۔ زرعی سماج میں عورتیں اب بھی مال مویشیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ بعض اوقات انہیں خاندانی دشمنیاں نمٹانے کےلیے ہرجانے کے طور پر مخالفین کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کم عمری کی جبری شادیاں، پرانے وقتوں کے مطابق حق مہر لکھوانا، وٹہ سٹہ، بیوی کی رائے لیے بغیر زبردستی کے اسقاطِ حمل، جہیز نہ ملنے کی صورت میں بیویوں کے اعضا بیچ دینا، غیرت کے نام پر قتل ’’کاروکاری‘‘، ونی، سوارہ، قرآن سے شادی وغیرہ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

پاکستان میں عورتوں کے مساوی حقوق کےلیے وقتاً فوقتاً قانون سازی بھی کی جاتی ہے، جن میں ’’کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون‘‘ اور ’’عورت دشمن روایات پر پابندی‘‘ کے قانون قابلِ ذکر ہیں۔ مگر قانون سازی کا خاطر خواہ فائدہ عام عورتوں کو نہیں پہنچ پاتا۔ قانون پر عمل درآمد میں اکثر پیچیدگیاں آڑے آجاتی ہیں۔ طاقتور دندناتے پھرتے ہیں اور کمزور طبقہ انصاف کےلیے روتا اور سسکتا رہ جاتا ہے۔

خواتین کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انہیں زندگی کے ہر معاملے میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اکثر قبائلی نظام میں بسنے والی دیہی اور شہری عورتیں اب بھی دورِ جاہلیت کی گھسی پٹی روایات کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ صبح سے رات گئے تک گھر اور باہر جبری مشقت کرتی ہیں۔ گھر، شوہر اور بچوں کی سیکڑوں ذمے داریاں تن تنہا نبھاتی ہیں۔ چوبیس گھنٹے بلامعاوضہ نوکری کرتی ہیں، ساتھ ہی کھیتوں میں کام کرتی ہیں، مال مویشی پالتی ہیں، سلائی کڑھائی کرتی ہیں، فیکٹریوں اور دفاتر میں بھی کام کرتی ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں مگر ان کی یہ تمام تر خاموش محنت مشقت کام کے زمرے میں نہیں آتی۔ ان کی تمام تر خدمات کا صلہ گھر کے مرد لے جاتے ہیں۔

عورتوں کو وراثت کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات گھر کے سرپرست جائیداد تقسیم ہوجانے کے خوف سے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی شادیاں نہیں کرواتے، یوں شادی کی عمر گزر جاتی ہے۔ ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے اور وہ بوڑھی ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں خواتین کا استحصال بچپن سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ کم عمری میں وہ اپنی ماؤں کو آخر میں کھانا کھاتے دیکھتی ہیں۔ بیٹوں کی خوراک کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ صنفی امتیاز عمر کے مختلف ادوار میں گھر اور باہر ہر جگہ برتا جاتا ہے۔ وہ اگر پڑھنا چاہتی ہیں تو ان کی تعلیم پر توجہ دینا والدین کی پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ ماں باپ یہی کہتے ہیں کہ تمھیں پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، کل شادی ہوکر پرائے گھر چلی جاؤ گی، ہمیں تم سے کون سی نوکری کروانی ہے، پڑھ لکھ کر بھی ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے۔ اگر وہ پڑھ لکھ جاتی ہیں تو ملازمت کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اگر میرٹ پر ملازمت مل بھی جائے تو وہاں اکثر پسند ناپسند کی وجہ سے ان کی زندگی تنگ کردی جاتی ہے۔ غیر موافق ماحول ان کے کام کرنے کی جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ مل مزدور اور دفاتر میں نوکری کرنے والی عورتوں کو جوائننگ لیٹر اور جاب سیکیورٹی نہیں دی جاتی۔ انہیں جب چاہیں کام سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملازمت پیشہ عورتیں اپنے بہت سے حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔

چند برسوں سے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد ہونے والے ’’عورت مارچ‘‘ پر شدید واویلا مچایا جارہا ہے۔ حالاں کہ ہمارے ہاں ہر جگہ عورتوں کا استحصال روز کا معمول ہے۔ اس ضمن میں خواتین اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم و زیادتی پر آواز اٹھانے کا پورا حق رکھتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق، تحفظ و ترقی کےلیے سرگرم ادارے بھی پاکستان میں عورتوں کی مجموعی صورت حال سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں، ریاست انہیں تحفظ فراہم نہیں کررہی ہے۔ ان کے مفاد میں بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس اس سلسلے میں اپنا مؤثر کردار ادا نہیں کرپارہے ہیں۔ سو عورت مارچ صنفی برابری کا ایک مزاحمتی نعرہ بن گیا ہے اور اب یہ نعرہ ایک مزاحمتی تحریک کا روپ دھار چکا ہے۔

ذرا سوچیے! عورتیں بھی انسان ہیں۔ وہ بھی زندگی جینے کےلیے ایک آزاد فرد جتنی آزادی چاہتی ہیں۔ وہ بھی سماجی و معاشی سطح پر برابری کے حقوق چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ صنف کی بنیاد پر قدم قدم پر ان کا سماجی و معاشی استحصال نہ کیا جائے تاکہ وہ بھی امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں