1

ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کیوں ناگزیر بنتی جا رہی ہے؟

ن م راشد نے جب لکھا کہ ’’خواب لے لو خواب ‘‘ تو پڑھنے والے سر دھنتے رہے۔ شاعر کو خوب داد ملی اور اب تک مل رہی ہے۔ ان کی نظم اندھا کباڑی شہرہ آفاق ہے لیکن کمیونیکیشن کا ماہر ادب پڑھتے ہوئے بھی دل کے ساتھ ساتھ دماغ سے کام لیتا رہتا ہے۔ اس نے نوٹ کیا کہ بیچنے والا ہو تو ’’خواب ‘‘ بھی بیچ سکتا ہے۔ اسی قسم کی بات خلیل الرحمن قمر کی ایک نظم میں بھی کی گئی ہے جس میں وہ باتیں اور یادیں تک بیچنے کے راز سے پردہ کچھ یوں اٹھاتے ہیں۔

میری شہرت، میرا ڈنکا، میرے اعزاز کا سن کر

کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں

میں بزنس مین ہو جاناں، میں چھو ٹا سا بیوپاری ہوں

میری آڑھت پے برسوں سے جو مہنگے داموں بکتا تھا

تیرے غم کا سودا تھا

تیری آنکھیں تیرے آنسو تیری چا ہت تیرے جذبے

یہاں شیلفوں پہ رکھے ہیں وہی تو میں نے بیچے ہیں

تمہاری بات چھڑ جا ئے تو باتیں بیچ دیتا ہوں

ضرورت کچھ زیادہ ہو تو یادیں بیچ دیتا ہوں

اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے اور انہیں قائل کرنے کا فن آجائے توانسان سب کچھ بدل سکتا ہے۔ ذہن بدل کر تبدیلی لانا دنیا کا سب سے کامیاب فارمولا ہے۔ اور جو اس فن میں یدِ طولی رکھتے ہیں وہ اتنے طاقت ور ہیں کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ شاعر محمود سروش تو لکھتے ہیں کہ ’’آئینہ بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں ‘‘۔ زبان پر عبور ہو۔ پراپیگنڈہ کی سائنس سے واقف ہوں۔ لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کر کے جو پیغام منتخب میڈیم کے لئے ذریعے ہوا کے دوش پر اڑایا جائے وہ آکسیجن کی مانند ٹارگٹ پاپولیشن کی سانسوں میں رچ بس جاتا ہے۔ لوگ غیر محسوس طریقے سے بدل جاتے ہیں۔

ان کی سوچ کا دھارا یوں بدلتا ہے کہ انہیں خود بھی کافی عرصے بعد احساس ہوتا ہے کہ اب وہ خواتین کی تعلیم کے بارے میں وہ نظریات نہیں رکھتے جو کبھی ان کے خیالات تھے۔

سیاست میں ان کی شمولیت پر فقرے نہیں کستے۔ ووٹ دینے کو قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ شادی سے پہلے فیملی پلاننگ بارے معلومات کو معیوب نہیں جانتے۔ ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال سے معاشرتی ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ بائی کاٹ کردیں۔ اپنی انا سے زیادہ منطق پر یقین رکھتے ہیں تو سمجھ لیں معاشرے کے اندر ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہر کام کرر ہے ہیں۔ ان کا پیغام بھی فضاؤں میں رس گھول رہا ہے۔

الفاظ تو سانچے ہیں۔ ان کے اندر معانی معاشرہ بھرتا ہے۔اور پھر زبان وجود میں آتی ہے ، اس میں تنوع اور ثقافتی رنگا رنگی ہوتی ہے۔ جو زبان جتنے زیادہ کلچرز کو چھو کر گزرے وہ اتنی زیادہ قابل قبول ہوجاتی ہے۔ جیسے پاکستان میں چاروں صوبوں کی الگ الگ علاقائی زبانیں ہیں۔کشمیر کی اپنی زبان ہے مگر اردو سب کو اپنے دامن میں یوں سمو لیتی ہے کہ قومی زبان کا درجہ اسے حاصل ہے۔ ابلاغ زندگی کی وجہ بھی ہے اور ضرورت بھی۔ معاشرے اسی کے ذریعے وجود میں آتے ، تشکیل پاتے اور پھر پھلتے پھولتے ہیں۔ ابلاغ یعنی کمیونیکیشن ہر ذی روح کرتا ہے۔

پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک۔ باتوں سے لے کر اشاروں کنایوں تک، سب ابلاغ کے ضمرے میں آتا ہے۔ جو جس قدر زبان کا ماہر ہو وہ اس قدر ڈھنگ سے اپنی بات سمجھا سکتا ہے۔ ایسے افراد کو ماہر ابلاغیات کہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے زمانے میں ادیب ہی صحافی ہوا کرتے تھے۔ صحافت کی زبان بھی ادبی زبان تھی۔ کم پڑھے لکھے شخص کے لئے اس کو پڑھنا اور سمجھنا ذرا مشکل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سہل اور عامیانہ زبان میں پیغام کی ترویج و اشاعت کی ضرورت کو محسوس کیا گیا تو صحافتی زبان وجو د میں آئی۔

یہ اس قدر خوبصورتی سے وجود میں آئی کہ پھر اخبار پرائمری پاس شخص سے لے کر پی ایچ ڈی تک سب پڑھ سکتے تھے اور کسی کو ناگوار نہ گزرتا۔ کامیاب صحافتی میڈیم وہی ہے جو لوگوں کے لئے سہولت پیدا کرے۔ ون پیجر اخبارات سے اٹھارہ بیس صفحات والے ، پھر ریڈیو نے سننے کی سہولت دی تو ٹی وی نے سننے اور دیکھنے کی دے دی۔ بعد ازاں ڈیجیٹل میڈیا نے ناظر اور سامع کو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد کر دیا۔ نو بجے والا خبرنامہ اب رات کو بارہ کے بعد بھی سنا جاسکتا ہے۔ محفوظ بھی بنایا جاسکتا ہے اور اس مقصد کے لئے بڑے آلات کی بھی ضرورت نہیں ہے، آپ کے موبائل کے اندر سب کچھ ہے۔ تفریح کے ذرائع جہاں جہاں موجود ہوں گے، ان کے اندر نقب لگا کر اپنا پیغام پہنچانے والے بھی وہاں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

میڈیا کو سب سے پہلے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس کے ذریعے بیوپاریوں نے لوگوں کی ذہن سازی کی، اپنی پراڈکٹ بنائی، اس کو استعمال کرنے بارے لوگوں کو بتایا، اس کے فائدے گنوائے اور لوگ تجربہ کرنے سے شروع کرتے اور بعدازاں اس کے عادی ہوجاتے۔ یوں میڈیا کے ذریعے کاروبار کو فروغ ملا۔ صنعتی انقلاب کے بعد خاص طور پر جب مشینیں چوبیس گھنٹے چلنے لگیں تو ان سے پیدا ہونے والی مصنوعات کی کھپت کے لئے ضروری تھا کہ لوگوں کے طرز زندگی پر وار کیاجائے اور انہیں مجبور کیا جائے کہ صنعت کار کی بنائی ہوئی اشیاء کو استعمال کریں، اس پر فخر کریں۔ برینڈڈ کا کانسپٹ فروغ پایا ،آپسی مقابلے بازی شروع ہوئی، پبلک امیج کی فکر ہوئی۔

اس کے نتیجے میں سرمایہ کار کی جیبیں ابھرنے لگیں، تجوریاں کھنکنے لگیں۔ ابلاغ کے ماہرین نے اس پر غورو خو ض کیا کہ اگر میڈیا کے پیغامات کے ذریعے چیزیں بیچی جاسکتی ہیں تو آئیڈیاز بھی کسی کمیونٹی کے اندر سرایت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ لوگوں کے رویوں کو بدلنے کے لئے میڈیا کی بندوق کے اندر ڈالے جانے والے میسجز خاص مصالحہ لگا کر ڈیزائن کئے گئے کہ جب وہ میسجز ٹارگٹ تک پہنچیں تو ان کی زندگیوں کو بالکل اسی طرح متاثر کریں یا بدل دیں جیسا کہ میسج بنانے والے نے سوچا تھا۔ اب اس قسم کے میسج یا پیغامات کون بنائے گا اور یہ جو جرنلزم ہوگی اس کو کیا نام دیا جائے گا۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سے ’’ڈویلپمنٹ جرنلزم ‘‘کا وجود قائم ہوا۔ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی ذہنی سے لے کر معاشی ترقی کے لئے جو کوششیں رویوں کی تبدیلی کے لئے کی جاتی ہیں، ان کو ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کہا جاتا ہے۔

آغاز میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ کام تو کوئی بھی کرسکتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ بطور سائنس اس کمیونیکیشن کی اہمیت کو سمجھا گیا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے نام سے باقاعدہ ڈگریاں اور سپیشلائزیشن کا آغا ز ہوا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہرین کی سب سے زیادہ ضرورت ترقی پذیر ممالک کے اندر ہے۔

جہاں لوگوں کو فرسودہ روایات اور خیالات کے چنگل سے نکالنا ناگزیر ہوچکا ہے۔اس کے بغیر جتنی مرضی سرمایہ کاری کی جائے یا انفراسٹرکچر بنایا جائے وہ سب تباہ ہوجائے گا۔ذہن سازی کی بہت اہمیت ہے۔ زندگی بارے مثبت ذہن سازی کے بناکسی کے پاس بہت زیادہ پیسہ آجائے تووہ اس سے اسلحہ خریدے گا اور اس کی نمائش کر کے فخر کرے گا جبکہ اگر ڈویلپمنٹ کیمپینز کے ذریعے سرمائے کے بہترین استعمال پر لوگوں کی تربیت ہو تو وہ اسی رقم سے اپنے علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے لگ جائیں گے۔

پاکستان کی صف اول کی یونیورسٹیز میں شامل پنجاب یونیورسٹی نے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے نام سے ایک الگ شعبہ قائم کیا ہے، جس کی قیادت ڈاکٹر عائشہ اشفاق کررہی ہیں، جنہوں نے مشرق و مغرب کے تعلیمی اداروں سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ پڑھایا بھی ہے۔ آپ کتاب اور کی بورڈ کے درمیان حائل خلیج سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ ان کی ٹیم میں ڈاکٹر شازیہ طور اور ڈاکٹر مدیحہ مقصود جیسی کمیونیکیشن کی ماہر استاد موجود ہیںجو جدید ذرائع ابلاغ اور اس کی نفسیات کی خوب سمجھ بوجھ رکھتی ہیں۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ وقتا فوقتا ایسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرواتا رہتا ہے کہ جس سے اکیڈیمیا اور پریکٹیکل فیلڈ میں حائل پردے بھی ہٹتے جارہے ہیں۔

ماہرین اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور طالب علم ان سے اپنے تجسس کے مطابق سوالات کرتے ہیں۔ حال ہی میں ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات میں یوتھ کے کردار پر بلاگ لکھنے اور ویڈیو بنانے کا مقابلہ ہوا۔ ادارہ کے حمید نظامی ہال میں سائبر قوانین اور خواتین کے لئے محفوظ سائبر سپیس کے عنوان سے ایک سیمینا رمنعقد کروایا گیا جس میں دانشور سلمان عابد، ڈاکٹر عائشہ اشفاق، ڈاکٹر سویرا شامی اور صحافی شیراز حسنات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ حکومت پنجاب کے اربن یونٹ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے اشتراک سے ڈیجیٹل ورلڈ میں میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔

طالب علموں کی ریسرچ میں سمجھ بوجھ اور مہارت کو بہتر بنانے کے لئے دو روزہ ایس پی ایس ایس ورکشاپ کا انعقاد بھی کیاگیا۔ ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب یونیورسٹی جس راہ پر چل پڑاہے ، یہاں سے ایسے ماہرین پیدا ہوں گے جو معاشر ے میں حقیقی تبدیلی کے علمبردار بنیں گے۔ حالیہ عام انتخابات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ڈیجیٹل میڈیمز کا استعمال کر کے اپنے پیغام کو گھر گھر اور بچے بچے تک پہنچانا بہت آسان ہوچکا ہے۔

شرط یہ ہے کہ اس پیغام کو دلچسپ بنایا جائے۔اسے تحریر ، تقریر، آواز ، گرافکس، ویڈیوز ، میوزک کی آمیزش سے اتنا مقبول کیا جائے کہ وہ کانوں میں رس گھولے ، آنکھوں کو تسکین دے۔ اس کے ملینز ویوز ہوں گے۔ بات بھی پہنچ جائے گی۔ سیاسی راہنماؤں کے بارے میں گائے جانے والے گانے اور ان کی مقبولیت اور اثرات ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے ماہرین کے لئے ایک کیس سڈی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے ان ماہرین کو لیب فراہم کر دی ہے، جہاں وہ سوچ بچار کرسکتے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں