1

گردشی قرضے کی حد برقرار، 1.2ارب ڈالر کی قسط ملنے کا امکان

لاگت میں کمی کیلیے چینی پاور پلانٹس سے بات چیت انکار کے باعث شروع نہ ہوئی۔ فوٹو: فائل

لاگت میں کمی کیلیے چینی پاور پلانٹس سے بات چیت انکار کے باعث شروع نہ ہوئی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد:پاکستان نے گردشی قرضوں کا ’’اسٹیٹس کو‘‘برقرار رکھنے کا آئی ایم ایف کا ہدف حاصل کر لیا جو کہ 1.2ارب ڈالر کی اگلی قسط کے حصول میں معاون ہو سکتا ہے تاہم بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود اس شعبہ میں بہتری کا امکان نہیں۔

وزارت توانائی کے حکام نے بتایا کہ گردشی قرضے میں اضافہ 385ارب پر رکھنے کا ہدف بجلی کی قیمتوں میں بروقت اضافے اور لائن لاسز میں کمی سے پورے کرلئے گئے۔

آئی ایم ایف تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے دوسرے جائزہ کے مذاکرات میں ان اہداف پر عملدرآمد کاجائزہ لے گا، تاہم نئی حکومت کی تشکیل کے پیش نظر اگلے جائزہ مذاکرات کی حتمی تاریخ نہیں دی۔

ذرائع نے بتایا کہ دسمبر تک گردشی قرضے385ارب تک رکھنے کی شرط کے برعکس ان کی سطح378تک بڑھی، تاہم رواں سال کی پہلی ششماہی میں پاور سیکٹر کا کل گردشی قرضہ 26 کھرب 90 ارب تک بڑھ گیا۔ پاکستان نے رواں مالی سال کے آخر تک گردشی قرضے جون2023 کی 23 کھرب، 10ارب کی سطح پر لانے کا وعدہ کیا ہے، اس سے زائد گردشی قرضوں کو بجلی کی قیمت میں مزید اضافے یا بجٹ سبسڈی کے ذریعے طے کئے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: شعبہ توانائی کا گردشی قرض اتارنے کیلیے تجاویز آئی ایم ایف کو بھیجی جائینگی

انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کا حکمت عملی کا فوکس پاور سیکٹر کے نقصانات بجٹ میں سبسڈی اور بجلی کی قیمت میں اضافے سے پورے کرنے پر ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ میں سبسڈی اور ماضی کی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 952ارب روپے مختص کئے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث لوگوں نے سولرپینلز سمیت متبادل ذرائع کا استعمال شروع کردیاہے۔

وزارت توانائی کے حکام نے کہا کہ گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کیلئے حکومت مسلسل ٹیرف میں ایندھن کی قیمتوں کے مطابق ردوبدل کر رہی ہے۔ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے جنوری کیلئے مزید سات روپے فی یونٹ اضافے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر نیپرا سمیت مختلف حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جولائی تا ستمبر، گردشی قرضوں کا حجم بڑھ کر 2540 ارب روپے ہوگیا

ادھر حکومت نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ لاگت میں کمی کیلئے آئی پی پیز کیساتھ بات چیت اور صارفین پر بوجھ کم کرنے کیلئے قابل تجدید توانائی کا نظام متعارف کرارہی ہے، تاہم اس میں ابھی تک ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی؛ چینی پاور پلانٹس سے بات چیت شروع ہی نہیں کی، چین اس حوالے سے معاہدوں پر غورسے انکار کر چکا ہے۔

حکومت نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا کنٹرول نجی شعبے کودینے میں بھی کوئی پیش رفت نہیں کی۔ فروری کے پہلے ہفتے نجکاری کمیٹی نے گجرانوالہ اور حیدرآباد ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو نجی شعبے کو دینے کی منظوری دیْ؛ انسداد بجلی چوری مہم سے بھی آئی ایم ایف کو آگاہ کیا۔

حکومت دسمبر میں بجلی چوری کا قابل دست اندازی پولیس جرم بنانے کا آرڈننس بھی نافذکر چکی ہے، پشاور اور حیدرآباد کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا آڈٹ بھی شروع کیا ہے، جس کی رپورٹ آئندہ ماہ آئی ایف کیساتھ شیئر کی جائے گی۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں