1

زراعت ِپاکستان بحران کی زد میں

وطن عزیز میںپچھلے چار برس سے غذاؤں کی قیمتیں بہت بڑھ چکیں اور اب متوسط ونچلے طبقوں کی بیشتر آمدن خوراک خریدنے پر صرف ہو رہی ہے۔ گویا بہت سے اخراجات کے لیے رقم ہی نہیں بچتی۔یہ مہنگائی معاشرے میں مالی ،معاشرتی اور نفسیاتی مسائل پیدا کر رہی ہے۔

غذائیں مہنگی ہونے کی ایک اہم وجہ زرعی اشیا مثلاً کھاد، بیج، افرادی قوت ، قدرتی گیس ، بجلی اور پٹرول کا مہنگا ہو جانا ہے۔ کسانوں کو مہنگی زرعی اشیا کے علاوہ پانی کی کمی کے مسئلے کا بھی سامناہے۔

کسان ظاہر ہے، مہنگی زرعی اشیا خرید کر اپنی غذائیں سستی نہیں بیچ سکتے، لہذا انھوں نے قیمتیں بڑھا دیں۔ رہی سہی کسر وچولے یا دلال اور دکان دار نکالتے ہیں۔ گاہک تک پہنچتے پہنچتے اکثر غذاؤں کی قیمت دگنی زیادہ ہو جاتی ہے۔گویا خوراک کے کاروبار میں کسان اور عوام (غذا بنانے اور خریدنے والے )تو پریشانی و ڈپریشن کا شکار ہیں، جبکہ دلال و دکان دار (غذا بیچنے والے)مالی فائدے میں رہتے ہیں۔ غذاؤں کی خریدوفروخت کا یہ نظام ناانصافی اور ظلم پہ مبنی ہے جسے تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

زراعت کی اہمیت

پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہے ۔ پندرہ سولہ کروڑ پاکستانیوں کا روزگار کسی نہ کسی طور اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ یہی شعبہ آبادی کو غذائیں مہیا کر کے جینے کا سامان پیدا کرتا ہے۔

تاہم حکومت اس کی ترقی کے لیے اتنی توجہ نہیں دے رہی ، جتنی زراعت کو ملنی چاہیے۔ موسموں اور آب وہوا میں تبدیلی ، آبادی میں تیزی سے اضافہ، پانی کی نایابی، زرعی زمینوں پر گھروں اور فیکٹریوں کی تعمیر اور زرعی اشیا کا مہنگا ہونا وہ بنیادی مسائل ہیں جن سے زراعت ِپاکستان نبردآزما ہے۔

یہ مسائل صرف پاکستانی حکومت کی توجہ و خلوص ہی سے حل ہو سکتے ہیں اور یہ ہمارے حکمران طبقے کی ذمے داری بھی ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات سے مملکت ِپاک میں زاعت کو ترقی دے اور کسانوں کے مسائل حل کرے تاکہ پاکستان میں سستی غذاؤں کی فراہمی یقینی بن جائے۔

مثال کے طور پہ پاکستان میں تقریباً 90 لاکھ کسان سرگرم عمل ہیں۔ ان میں سے 70لاکھ چھوٹے کسان ہیں۔ حکومت کو یقینی بنانا چاہیے کہ خاص طور پہ چھوٹے کسانوں کو کھیتی باڑی کے لیے بیج ، کھاد اور کیڑے مار ادویہ سستی اور وافر مل جائیں۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ جب بھی کھیتی کا وقت آئے تو بیج یا کھاد نایاب ہو جاتی ہے۔ لالچی وہوس کے مارے بااثر لوگ یہ زرعی اشیا ذخیرہ کر لیتے ہیں تاکہ انھیں مہنگا کر کے فروخت کیا جا سکے۔

مہنگی کھادیں

ایک یوریا کھا د کی بوری کی سرکاری قیمت 3,560 روپے ہے ، مگر کھیتی کے زمانے میں خصوصاً ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے وہ 5,600 روپے تک چلی جاتی ہے۔ بیچارے کسان اس قیمت پہ کھاد خریدنے پر مجبور ہیں کہ انھیں کھیتی کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ زرعی اشیا کی بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے وہ بھی اناج یا سبزی مہنگی فروخت کرتے ہیں تاکہ اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔

کھیت کی مٹی کو 16 غذائی عناصر (nutrients)کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے تین اہم ہیں: نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم۔ پھر کیلشیم، میگنشیم اور گندھک کا نمبر آتا ہے۔ ’’یوریا کھاد‘‘ سب سے زیادہ نائٹروجن رکھتی ہے۔ اگر مٹی کو یہ تمام عناصرنہ ملیں تو وہ نیم بنجر ہو جاتی ہے اور اس میں لگنے والے اناج یا سبزی کی پیداوار بہت کم رہتی ہے۔ پاکستان میں یوریا اور فاسفورس کی کھاد (ڈی اے پی) زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔

اگرچہ مٹی کی درست کیمیائی ہیئت معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق اسے کھادیں دی جائیں تو پیداوار زیادہ ہوسکتی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں اب یہی رواج ہے کہ کھیت کی مٹی کی کیمیائی ترکیب جان کر پھر اسے مطلوبہ غذائی عناصر دئیے جاتے ہیں۔ اس طریق سے ان ملکوں میں اناج، سبزی اور پھلوں وغیرہ کی پیداوار دگنی کی جا چکی۔

پاکستان میں بھی تعلیم یافتہ کسان جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اپنے کھیتوں کی مٹی کا کیمیائی تجزیہ کرانے لگے ہیں۔ یوں وہ اپنی پیداوار بڑھانے میں کامیاب رہے تاہم ان کی تعداد کافی کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سلسلسے میں سبھی کسانوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرے۔ یہ نہایت سنجیدہ و اہم معاملہ ہے۔

ظاہر ہے، ہر پاکستانی کسان اپنے کھیت کو مطلوبہ غذائی عناصر فراہم کرنے لگے تو پاکستان میں غذاؤں کی پیداوار خاطر خواہ بڑھ جائے گی۔ یوں آبادی کو زیادہ خوراک میّسر آئے گی اور غذائیں سستی ہو جائیں گی۔ ابھی تو ہر سال مہنگی غذا کی وجہ سے کئی ہزار بچے ناکافی غذائیت ملنے کے باعث چل بستے ہیں۔

یوریا اور ڈی اے پی

یوریا دراصل نائٹروجن پہ مبنی کھاد ہے۔ اس کا تیاری کا مراحل یہ ہیں: ہوا سے نائٹروجن اور قدرتی گیس سے ہائیڈروجن گیس لے کر بہت زیادہ بلند درجہ حرارت اور دباؤ والے ماحول میں انھیں ملایا جاتا ہے۔ یوں ایمونیا گیس جنم لیتی ہے۔ اس گیس کو مائع کاربن ڈائی آکسیڈ کے ساتھ ملا کر یوریا کھاد تیار ہوتی ہے۔

فاسفورس پہ مبنی کھادیں فاسفیٹ معدن سے بنتی ہے جو فاسفیٹ کی چٹانوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح کھیتی کے لیے ضروری تیسرے اہم عنصر، پوٹاشیم کی کھادیں بھی پوٹاش کی چٹانوں سے یہ معدن نکال کر بنائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں مختلف کمپنیاں یوریا، ڈی پی اے اور پوٹاشیم کی کھادیں تیار کرتی ہیں تاہم وہ مقامی طلب پوری نہیں کر پاتیں۔ اسی لیے ہر سال کئی لاکھ ٹن یوریا ، ڈی پی اے اور دیگر کھادیں درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ یہ امر کھادیں بتدریج مہنگی ہونے کی اہم وجہ ہے۔ قدرتی گیس کی قیمت بڑھنے سے بھی یوریا کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

کسانوں کی شکایت

حکومت پاکستان ہر سال یوریا، ڈی پی اے اور دیگر کھادیں بنانے والی کمپنیوں کو قدرتی گیس سستی فراہم کرتی ہے۔ پچھلے سال اس ضمن میں انھیں90 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ مدعا یہ ہے کہ کمپنیاں سستی کھادیں پاکستانی کسانوں کو فراہم کر سکیں۔ مگر کسان تنظیموں کے رہنما ان کمپنیوں پہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سرکاری سبسڈی کا مالی فائدہ اٹھا کر سالانہ اربوں روپے کماتی ہیں جبکہ کسانوں کومہنگی کھاد ہی فروخت کی جاتی ہے۔گویا سبسڈی کافائدہ عام کسان کو نہیں مل رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کی یہ شکایت دور کرنے کے لیے بھرپور اقدامات کرے۔

جیسا کہ بتایا گیا ، یوریا کھاد قدرتی گیس سے بنتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں قدرتی گیس وافر مقدار میں موجود تھی۔اس لیے ممکن ہو گیا کہ یوریا کھاد کم قیمت پر بنا کر سستی کسانوں کو فروخت کی جا سکے۔اب وطن عزیز میں قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے گھٹ رہے ہیں۔ چناں چہ یہ گیس نایابی کے باعث مہنگی ہو رہی ہے اور اس سے بنی یوریا کھاد بھی۔

ایک قومی المیّہ

وطن عزیز کا ایک بڑا المیہّ یہ ہے کہ اسے دور اندیش اور قابل حکمران طبقہ نہیں مل سکا۔ اس طبقے کے اکثر ارکان دولت، گاڑیاں، بنگلے ، اعلی عہدے اور تمام آسائشیں پانے کے چکر میں رہتے ہیں اور اپنے فرائض بخوبی پورے نہیں کرتے۔اسی لیے پاکستان میں اچھے انتظام ِحکومت یا گڈ گورنس کا بحران جنم لے چکا۔

یہی دیکھیے کہ بھارتی حکومت بحیرہ عرب میں تیل وگیس کے کنوئیں دریافت کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے۔ممبئی کے قریب حال ہی میں دونوں ایندھنوں کے نئے ذخائر ملے ہیں۔ پاکستانی حکومت کی توجہ مگر سیاسی بکھیڑوں کی طرف زیادہ ہے اور وہ اپنا اصل کام یعنی عوام کی بہتری و فلاح وبہبود کی جانب سے غافل ہے۔ 2019ء میں پاکستانی حکومت نے کراچی کے قریب تیل وگیس کی تلاش شروع کی تھی مگر جلد ہی یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا۔ حالانکہ تیل وگیس کی کھوج چھوٹے پیمانے پہ ہی سہی، جاری رکھی جاتی تو بھارتیوں کی طرح ہمیں بھی کامیابی مل سکتی تھی۔

بیڈ گورنس کی وجہ سے پڑوسی بھارتی ، بنگلہ دیشی اور سری لنکن حکومتوں کے برعکس ہمارا حکمران طبقہ آبادی میں اضافہ بھی نہیں روک سکا۔ لہذا ہر سال تقریباً پچاس لاکھ نئے مردوزن پاکستانی آبادی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ گویا صرف ایک سال میں نصف کروڑ آبادی والاشہر وجود میں آ تا ہے۔ ذرا سوچیے، اگر قدرتی گیس کے نئے ذخائر دریافت نہ ہوئے تو یوریا کھاد کی قیمت مسلسل بڑھتی رہے گی اور یوں غذاؤں کی قیمتوں میں اضافہ بھی جاری رہے گا۔ یہ چلن تو ایک دن غریب کو بھوکا مارنے لگے گا۔

فاسفیٹ کی کانیں

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبوں، خیرپختون خواہ، بلوچستان اور پنجاب میں موجود چٹانوں میں بیس کروڑ ٹن فاسفیٹ موجود ہے، مگر پاکستانی حکومت نے اسے نکالنے کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ ہر سال چند لاکھ ٹن فاسفیٹ ہی چٹانوں سے حاصل ہوتا ہے۔ حالانکہ اس عدد کو باآسانی سے بڑھانا ممکن ہے۔مگر ایسا کرنے کے لیے جو فرض شناسی، احساس ِ ذمے داری اور اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ کہاں سے آئے؟

حکمران طبقہ مہنگی کھادیں بیرون ممالک سے منگوا لے گا مگر انھیں پاکستان میں تیار کرنے کے اہم اقدامات نہیں اٹھائے گا تاکہ وہ سستے طریقے سے بن سکیں ۔ کیا وجہ یہ ہے کہ حکومت میں شامل کرپٹ مگرطاقتور عناصر کو درآمد برآمد کے شعبے سے کمیشن یا کرپشن کی صورت بھاری رقم حاصل ہوتی ہے؟مثال کے طور پہ پاکستان میں حال ہی میں پیاز کی قیمت تیزی سے بڑھی ہے، مگر اسے مسلسل باہر بھجوایا جا رہا ہے۔ بھارت میں جب بھی کوئی غذا مہنگی ہو تو حکومت اسے باہر بھجوانے پر پابندی لگا دیتی ہے تاکہ بھارتی عوام کو وہ سستی میسرّ آئے۔اسی لیے بھارت میں غذائیں سستی ہیں۔

اگر حکومت ِ پاکستان نے مستقبل میں لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانیوں کو بھوک جیسے خوفناک عفریت سے محفوظ رکھنا ہے، تو اسے فی الفور ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو پاکستانی کسانوں کے مسائل حل کر دیں اور انھیں کھیتی باڑی کرنے میں آسانیاں فراہم کریں۔ صرف اسی طور پہ وافر غذائیں ہونے سے پاکستانی آبادی پیٹ بھر کر کھانا کھا پائے گی۔ دوسری صورت میں ایسا نہ ہو، انقلابِ فرانس کی طرح کروڑوں بھوکے حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کر دیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں