1

فضائل سیدنا صدیق اکبرؓ کلام اقبال کی روشنی میں

ہم سب سے پہلے حضرت علامہ اقبال کی وہ مشہور زمانہ معرکتہ الآرا نظم پیش کرتے ہیں جو غزوہ تبوک کے پس منظر میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ وہ معرکہ حق و باطل ہے جس میں مسلمانوں کے جذبہ ایثار کا زبردست امتحان ہوا شدید گرمی کے موسم کے ساتھ اہل اسلام کو مفلوک الحالی کا بھی سامنا تھا۔

پانی کی کم یابی کا عالم یہ تھا کہ لشکراسلام کو اونٹ ذبح کرکے ان کے معدوں میں موجود پانی سے تشنہ لبی کا تدارک کرنا پڑا۔ مال وزر کی کمی نے احساس محرومی کا ایک بحران پیدا کردیا مگر دو عظیم شخصیات کی اولوالعزمی اور شان فیاضی نے اس احساس کو گہرا ہونے سے بچالیا، ان میں ایک سیدنا عثمان ذوالنورینؓ اور دوسرے سیدنا صدیق اکبرؓ تھے۔

جب حضورسرورعالمﷺ نے صحابہ کرامؓؓ سے جیش اسلام کی معاونت کے لیے ارشاد فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرط محبت اور کمال وسعت قلبی سے گھر کا کل اثاثہ اپنے آقا ومولٰیﷺ کے سامنے ڈھیر کردیا۔ فرمان نبوت سن کر جناب ابوبکرؓ اور جناب عمرفاروقؓ دونوں اکٹھے گھر گئے۔ سیدنا عمرفاروقؓ کو حضرت صدیق اکبرؓ کے جذبہ فدا کاری پر اس قدر رشک آیا کہ وہ یہ سوچتے ہوئے گھر گئے کہ آج میں اخلاص و مروت کے اس امتحان میں ابوبکرؓ سے بڑھ کے رہوں گا۔

یہ سوچ کر گھر پہنچے اور مال و متاع کے دو حصے کیے ایک اہل خانہ کے لیے اور دوسرا معرکہ حق و باطل میں احیا و بقائے دین حق کی خاطر حضور رسالت مآبﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا اور دل میں جناب ابوبکرؓ کے ساتھ یہ ذوق تقابل بھی تھا کہ آج میرا راہوار محبت صدیق اکبرؓ سے بڑھ جائے گا مگر جناب فاروق اعظمؓ کو کیا خبر تھی کہ دنیا میں جس سے بنائے عشق و محبت استوار ہوتی ہے وہ فقط ایک ہی ہستی ہے اور اس کا نام ابوبکر بن ابی قحافہ ہے۔ اقبالؒ کی کلک صدف بار کو نجانے ذوق کے کس لمحہ حیات بخش میں جنبش ہوئی اور اس نے کمال فن کا عدیم المثال مظاہرہ فرماتے ہوئے یہ شعر تحریر کردیا جو بزم اہل وفا کو طلوع محشر تک جگمگا تار ہے گا۔

اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آ گیا

جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت

ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار

ملک یمین و درہم و دینار و رخت و جنس

اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار

بولے حضور چاہیے فکر عیال بھی

کہنے لگا وہ عشق و محبت کا رازدار

اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر

اے تیری ذات! باعث تکوین روزگار

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول (ﷺ) بس

یوں تو حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ پوری نظم فضیلت صدیق اکبرؓ کی شان دار عکاسی کر رہی ہے مگر اقبالؒ شناس ضرور اس کے چند اشعار کے ارتفاع و اہمیت کو سمجھتے ہوں گے مثلاً اس شعر کا یہ مصرعہ انتہائی توجہ طلب ہے۔

اقبالؒ فرماتے ہیں، ’’لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت۔‘‘ حضرت اقبالؒ جیسا عالم، فاضل اور حقیقت پسند مفکر مزاج صدیقیت سے کماحقہ آگاہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے جسم کا خمیر آب وفا میں گوندھا گیا تھا۔ یعنی آپ روزازل سے ہی بزم وفا و استغنا کے صدرنشیں تھے اور آپ نے زندگی کی آخری سانس تک عہدوفا کی لاج رکھی۔

اقبالؒ نے آپ کو عشق و محبت کا رازدار کہا ہے۔ یہ خطاب پانے والے واحد رفیق نبوت جناب ابوبکر صدیقؓ تھے۔ اس نظم کا آخری شعر تو انتہائے کمال کو پہنچا ہوا ہے اور ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس میں پائے جانے والے تلذذ اور تلطف کو ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں۔ جناب رسول اللہ نے پوچھا کہ کیا فکرعیال بھی کیا ہے؟ تو آپ نے بلا تامل و بے ساختہ جواب دیا: حضور!

پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول (ﷺ) بس

اس شعر میں حضرت علامہؒ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کے قلب فروزاں میں اپنے آقا کی محبت کے جو سمندر ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور عقیدت و مودت کی جو موجیں اُمڈ اُمڈ پڑتی ہیں، ان کا اظہار یوں کیا ہے کہ اس سے زیادہ ممکن انداز میں اظہار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس

ذرا اہل دل اس مصرعے کی نزاکت تو ملاحظہ کریں۔ یعنی دنیا بھر کی لذتیں، لطافتیں لعل و گہر اور تعیشات آقاﷺ کے جنبش ابرو پر قربان کیے جا سکتے ہیں۔ اقبالیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں اس حقیقت کا اظہار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتا کہ حضور رسالت مآب کی ذات گرامی کے بعد حضرت علامہ اقبالؒ نے جتنے بزرگان دین اسلام کے بارے میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے ان میں سیدنا صدیق اکبرؓ کے بارے میں یہ شعر سب سے برتر و بالا نظر آ تا ہے۔

لیکن یہ میرا ذاتی خیال ہے اس سے اقبال شناسوں کو اختلاف کا پورا حق حاصل ہے۔ با نگ درا کے تیسرے حصے میں موجود حضرت علامہ اقبالؒ کی اردو زبان میں جناب ابوبکرؓ کی شان میں یہ نظم اقبال کی صدیق اکبرؓ کے ساتھ عقیدت کی غماز ہے جو اپنی مثال آپ ہے مگر اقبال نے اپنے فارسی کلام میں صدیق اکبرؓ کی بارگاہ عظمت پناہ میں جو سلام پیش کیا ہے اس کی سطوت و شوکت کو فارسی داں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ آئیے ذرا بارگاہ صدیق اکبرؓ میں حضرت علامہ اقبالؒ کے فارسی جواہر پاروں سے حظ اٹھاتے ہیں:

دگرگوں کرد لا دینی جہاں را

ز آثار بدن گفتند جان را

ازاں فقرے کے با صدیقؓ دادی

بشورے آ در این آسودہ جاں را

پہلے اس معروف رباعی کا سادہ اور سلیس ترجمہ کرتے ہیں: ترجمہ:

بے دینی نے جہان کو تہ و بالا کردیا ہے حتیٰ کہ آج روح کو بھی جسم کہا جا رہا ہے۔

یا رسول اللہ! اس درویشی سے جو آپ نے صدیق اکبرؓ کو عطا کی، مسلمان کی آرام پسند اور عمل سے بے گانہ جان میں ایک ولولہ پیدا کر۔

اس رباعی میں جو گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے اس سے اعتدال پسند اور غیرمتعصب اقبالؒ شناس خوب واقف ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے نزدیک ذات صدیق اکبرؓ الحاد و بے دینی کے دورِپُرفتن کے خلاف قوت مدافعت کا مظہر اور مزاحمت کے ایک استعارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ بارگاہ رسالت مآب میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! چاروں طرف ظلمت و جہالت اور وحشت و بربریت نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، ہر سمت ذریت ابلیس محورقص ہے، شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

مادیت پرستی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، حتٰی کہ بدن کو روح کا نام دیا جا رہا ہے، حالاںکہ ایک چیز امر ربی ہے جس کی حقیقت اللہ رب العزت کے سوا کسی کو معلوم نہیں اور دوسرا جسم ہے جو اللہ کی نیابت کا اظہار ہے، جب روح جسم کو چھوڑ جاتی ہے تو اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اب مادیت گزیدگی نے دونوں کے فرق کو ختم کردیا ہے۔ حقائق کی جگہ وہم و گمان نے لے لی ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں اقبالؒ استمدادیہ صورت میں بارگاہ نبوی میں التماس گزار ہیں کہ آپ نے فقر کی جو دولت صدیق اکبرؓ کو ارزانی فرمائی اس میں سے کچھ حصہ مجھے بھی عطا فرمائیے تا کہ میں مادہ پرستانہ رجحانات کا مقابلہ کر سکوں۔

حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ گداز آفرین رباعی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ یہ حضورﷺ کی صحبت فیض رسانی کا ہی اعجاز ہے کہ آپ کے وصال کے بعد دین اسلام سے انحراف کرتے ہوئے جن شرپسند قوتوں نے سر اٹھایا انھیں جناب ابوبکرؓ نے اپنی قوت ایمانی اور فراست وتد بر سے کچل کر رکھ دیا۔ اس طرح صدیق اکبرؓ کی ذات الحاد کے امڈتے ہوئے طوفانوں کے خلاف ایک حسین استعارہ بن گئی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کو حضور سید المرسلینﷺ کی ذات گرامی سے کس جنون کی حد تک محبت تھی اس کا اندازہ علامہ اقبالؒ کے ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے:

معنی حرم کنی تحقیق اگر، بنگری با دیدہ صدیقؓ اگر

قوت قلب و جگر گردد نبی، از خدا محبوب تر گردد نبی

ترجمہ: ’’اگر تو میرے حرف کی تحقیق کرے اور تو اگر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھ سے دیکھے، تو نبی دل اور جگر کی طاقت بن جاتے ہیں اور اللہ سے بھی زیادہ محبوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے محبوب، باعث تخلیق کائنات، صاحب لولک لما خلق الافلاک، اولاد آدم کی فتح مبین ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عزت وحرمت، آپ کی عظمت و شوکت، اوج و رفعت اور جلال و جمال کا نظارہ کرنا کسی عام انسان کے قلب و نظر کے بس میں نہیں۔ اس کے لیے حضور کے رفیق خاص، رازدار خلوت و جلوت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھ درکار ہے۔

چشم صدیق اکبرؓ ہی آپ کے روئے درخشاں پر موج زن انوار وتجلیات کا مشاہدہ کرنے اور اس کی توضیح وصراحت کرنے کی تاب و تواں رکھتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اے انسان! اگر تجھے فراست و تبریر صدیق اکبرؓ کا کچھ حصہ مل جائے تو، تو اس حقیقت کو پالے گا کہ ذات پیغمبرﷺ ایک مسلمان کے دل و جگر کی قوت بن جاتی ہے، یعنی آپ کی محبت اس قدر اس کی رگ رگ میں سما جاتی ہے کہ لامحدود مشکلات اور مصائب و آلام کی آندھیاں بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتیں۔

اس جذبہ حب رسول کی وجہ سے وہ چٹانوں سے ٹکرانے اور پہاڑوں کو سر کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے محبتِ رسول کو اپنے دامن میں سجا کر صحرائے عالم کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند دیا تھا اور دریاؤں کی تلاطم خیز موجوں کو خاطر میں نہیں لائے تھے اور یہ جذبہ عشق رسول حدود مکان و لامکاں سے بھی بڑھ جاتا ہے تو یہ ایک مسلمان کو خالق کائنات سے بڑھ کر وجہ تخلیق کائنات کے قریب تر کر دیتا ہے۔ اس تصور کو اقبالؒ نے ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا کہ:

تو فر مودی رو بطحا گرفتم وگرنہ جز تو ما را منزل نیست

یعنی: آپ نے ہمیں مکہ شریف کا راستہ بتایا ورنہ ہماری منزل تو مدینہ شریف ہے۔

مراد یہ ہے کہ توحیدباری تعالیٰ پر ایمان حضور سید المرسلینﷺ کے توسل سے نصیب ہوا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی دانست میں ذات پیغمبرؓ کے بعد امت مسلمہ کی خبر گیری و راہ نمائی اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ جناب ابوبکرصدیقؓ ہیں، کیوں کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد انھیں مصائب و آلام کی جن آندھیوں سے واسطہ پڑا ان سے نبرد آزما نہ ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے بے پناہ عزیمت و استقلال اور فقیدالمثال شجاعت و بسالت درکار تھی اور یہ سب کچھ جناب صدیق اکبرؓ کو اللہ نے اپنے محبوبؐ کی وساطت سے عطا کردیا تھا۔

کوئی کم زور اور متذبذب قوت فیصلہ کا حامل انسان یقیناً لڑکھڑا جاتا مگر آپ کی الوالعزمی نے مواج بحر ارتداد کو پابند ساحل کرکے رکھ دیا۔ اس لیے جمہور نے آپ کے انتخاب کو درست قرار دیا ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا علاج علامہ اقبالؒ بارگاہ ابوبکرؓ سے دریافت کر رہے ہیں کہ اے رازدار عشق و محبت ! آپ کی کاوشوں سے مستقبل اسلام درخشاں و مستحکم ہوا اور ہماری بنیادیں مضبوط تر ہوئیں اس لیے اب بھی ہماری چارہ گری کیجیے اور جو امت مبتلائے اوہام ہوچکی ہے اس کا تریاق ارزانی کریں۔

اگلے شعر میں جناب صدیق اکبرؓ نے اقبالؒ کو مایوس نہیں فرمایا بلکہ اس آزار کا شافی حل تجویز فرمایا ہے:

گفت تا کے در ہوس گردی اسیر آب و تاب از سورہ اخلاص گیر

ترجمہ: آپ نے ارشاد فرمایا: ’’تو کب تک حرص و ہوا میں اسیر رہے گا۔ سورۂ اخلاص سے چمک اور تابش حاصل کر۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے اقبالؒ کی یاسیت اور تذبذب کے جواب میں ایسا مختصر مگر جامع حل تجویز فرمایا جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد بحر ظلمات میں ہچکولے کھانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ آپ نے محسوس کیا کہ امتِ مسلمہ کی تباہی توحید رب ذوالجلال سے روگردانی کی وجہ سے ہے اور یہ اصنام وہم و گماں کی پرستش میں مصروف ہے، توکل علی اللہ کے بجائے مادیت کی تلاش میں سرگرداں ہے اور یہی اس کے زوال و انحطاط کا باعث ہے۔ آپ بزبان اقبالؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے مسلمان! تو کب تک ہوس ناکی اور مادیت پرستی کا شکار رہے گا۔ اگر تو اپنے سفینہ تذبذب کو ساحل طمانیت سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے تو سورۂ اخلاص کو سمجھنے اور دل کی گہرائیوں سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر۔ سورۂ اخلاص ایک ایسا چراغ ہے جس کی تابانیت سے تو نہاں خانہ دل کو منور کر سکتا ہے۔

اس لیے حضورﷺ نے سورۂ اخلاص کے ساتھ محبت کو دخول فردوس بریں کا سبب قرار دیا ہے۔ مفسرین کرام تحریر کرتے ہیں کہ ایک صحابی دوران نماز و جماعت فقط سورہ اخلاص کی تلاوت کیا کرتے۔ صحابہؓ نے ان کی اس روش کی شکایت حضورﷺ سے کی۔ آپ نے استفسار فرمایا کہ نماز میں صر ف سورۂ اخلاص ہی کی تلاوت کا سبب کیا ہے۔ صحابیؓ نے عرض کیا: آقا! مجھے اس سورۂ مبارکہ سے محبت ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تو پھر تمھارے اور جنت کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہیں رہا۔

شاید اسی لیے حضرت علامہ اقبال حضرت ابوہریرہؓ کے حوالے سے اس کی اہمیت کو زیربحث لائے ہیں۔ اگلے شعر میں حضرت علامہ اقبالؒ نے اس سورہ مطہرہ کے خصائص کی توضیح کی ہے۔ جناب ابوبکر صدیقؓ، علامہ اقبالؒ کی مزید راہ نمائی کرتے ہوئے سورہ اخلاص کی شان بیان فرماتے ہیں:

ایں در صد سینہ پیچیدیک نفس سرے از اسرار توحید است و بس

یہاں سیدنا صدیق اکبرؓ سورہ اخلاص کو پورے قرآن پاک کا نچوڑ اور عطر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ترجمہ: ’’یہ توحید کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے اور بس، جو سیکڑوں سینوں میں ایک سانس کی طرح پیچ اور بل کھاتا ہے۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ واقف رموز حقیقت، حضرت علامہ محمد اقبالؒ کو سورۃ اخلاص کی مزید توضیح سے فیض یاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ سورہ مبارکہ اللہ کی وحدانیت کا سب سے بڑا مخزن و معدن ہے اور اللہ کے سیکڑوں، لاکھوں نیک بندے  دین و دنیا کی سرفرازیاں اس ایک نکتے میں مضمر سمجھتے ہیں اور یہ نکتہ توحید اس وقت سمجھا اور بیان میں آ سکتا ہے جب سینوں اور دماغوں سے تصورلات و منات یکسر نکال دیا جائے۔ اصل خرابی اور بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم توحید پر محض رسماً ایمان لاتے ہیں اور اللہ کے مقابلے میں مادی سہاروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں اور گرداب میں پھنستے ہی چلے جاتے ہیں۔ اقبال نے اس تصور توحید کو اردو میں بھی بیان فرمایا ہے:

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری

مثنوی میں حضرت علامہ اقبالؒ نے ایک مسلسل نظم میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ اپنی اور حضرت ابوبکرؓ کی اپنے آقاومولٰیﷺ سے بے پایاں محبت کا جس بے مثال و دل پذیر انداز میں تذکرہ فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ، قرآن کریم ، فرامین رسول اور تاریخ کا کتنا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ فکراقبال کے متعلق میرا مسلک و نظریہ یہ ہے کہ اقبال کا کلام غیرمتوازن نہیں ہے۔ آپ نے اہل بیت اطہار اور اصحاب رسول کے ساتھ اپنی عقیدت کا یکساں اظہار کیا ہے۔ اس عہدساز نظم کا پہلا شعر کس قدر عقیدت و محبت کا مظہر ہے۔

آپ قارئین کرام ! ذرا ان اشعار کا بنظر عمیق مطالعہ کر یں:

من شبے صدیق را دیدم بخواب گل ز خاک راہ او چیدم بخواب

ترجمہ: میں نے ایک رات حضرت صدیق اکبرؓ کو خواب میں دیکھا ، میں نے ان کے راستے کی مٹی سے پھول چنے (مراد ان کے فرمودات سے استفادہ کیا)

عالم رویا میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کی زیارت حضرت علامہ اقبالؒ کے نزدیک ایک سعادت سے کم نہیں۔ پھر زیارت ہی نہیں بلکہ دبستان صدیق اکبرؓ کی فکر سے استفادہ کیا۔ آگے کا شعر رفیق نبوت کی عظمتوں اور رفعتوں کی ایسی بے مثال عکاسی کر رہا ہے جس سے روح کو بالیدگی اور ایمان کو تازگی عطا ہوتی ہے۔ یہ شعر رقم کرتے ہوئے قلم کو از خود جنش عطا ہوتی ہے۔

آں امن الناس بر مولائے ما آں کلیم اول سینائے ما

ترجمہ: ’’وہ جن کے ہمارے آقا ﷺ پر باقی لوگوں سے محبت اور مال میں احسانات زیادہ تھے، وہ ہمارے طور سینا کے پہلے کلیم تھے۔

یہ شعر قلوب اہل ایمان میں وہ سوز و گداز اور وہ ایقان و حرارت پیدا کر دیتا ہے جو فدایان کوئے بطحا کو مزار صدیق اکبرؓ کی زیارت کے لیے بے چین کر دیتا ہے۔

اقبالؒ کہتے ہیں وہ کون صدیق اکبرؓ، جن کی میں نے خواب میں زیارت کی اور ان کے گلستان فکر سے برگ ہائے لالہ و گل سمیٹ کر مشام جاں کو معطر کرلیا، کائنات بھر کے لوگوں سے بڑھ کر جن کے احسانات حضور کی ذات والا صفات پر زیادہ تھے۔ وہی صدیقؓ جنھوں نے آقا کی ایک جنبش ابرو پر اپنا تن من دھن قربان کردیا۔ اور پھر اس بے مثال فدا کاری پر تسلیم و رضا کا ایسا مظاہرہ فرمایا کہ کائنات وجد میں آگئی۔ اس لیے آپ نے فرمایا تھا کہ میں نے تمام لوگوں کے احسانات کا بدلہ اتار دیا ہے لیکن ابوبکر کے احسانات اتنے لامحدود ہیں کہ ان کا بدلہ خو درب ذوالجلال اتارے گا۔

دوسرا مصرعہ اقبالؒ کے علوفکر کی معراج نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جناب ابوبکرؓ ہمارے طور سینا کے پہلے کلیم ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اس عالم امکان میں موجود اہل دانش و تدبر میں جناب ابوبکرؓ ایسے پہلے کلیم ہیں جنھوں نے صحرائے عرب کے طور سینا پر جمال مصطفیﷺ کا نظارہ کیا اور حضورﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ دراصل اقبالؒ کے بعض اشعار میں موجود تراکیب اس قدر بلیغ ہیںکہ انھیں محض پڑھ کر ہی لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کی توضیحات کے لیے شہ پر جبریل کی معاونت درکار ہے۔

اس نظم کے تیسرے شعر میں عقیدت کے ساتھ ساتھ الفاظ میں جو موسیقیت اور ترنم پایا جا تا ہے وہ بھی بے خود و مسحور کردیتا ہے:

ہمت او کشت ملت را چ و ابر

ثانی اسلام و غار و بدر و قبر





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں