1

سیاسی مخالفت کو دشمنی نہ بنائیں

پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے پی ٹی آئی کو کہا ہے کہ ہمارا سیاسی مخالف ایک ہے آئیں مل کر اسے شکست دیں۔

ان کے پیغام کا واضح مقصد یہ ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی مشترکہ مخالف جماعت مسلم لیگ ن ہے اس لیے آئیں دونوں مل کر مسلم لیگ ن کا مقابلہ کریں اور اسے شکست دیں۔

سیاست میں دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی مخالفت ضرور ہوتی ہے جو پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد سیاسی دشمنی میں تبدیل کر دی تھی اور حکومت میں شامل اپنی حلیف جماعتوں کے سوا باقی تمام اپنی مخالف سیاسی جماعتوں سے قطع تعلق کرلیا تھا۔

حلیف جماعتوں میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق وہ جماعتیں تھیں جنھیں چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار ملنے سے قبل اپنا سخت حریف بنایا ہوا تھا، انھوں نے ایم کیو ایم اور اس کی قیادت پر نہ صرف سنگین الزامات لگائے تھے بلکہ لندن جا کر بانی ایم کیو ایم کے خلاف مہم چلائی تھی۔

انھوں نے شیخ رشید کو پہلے کسی اہل بھی نہ سمجھا تھا مگر بعد میں اپنی حکومت میں وزیر ریلوے اور وزیر داخلہ بھی بنایا تھا۔

بانی پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کی قیادت کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور پیپلزپارٹی کی قیادت پر بھی مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی ملک لوٹنے والے قرار دیتے تھے مگر بعد میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے انھوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کرانے کے لیے پیپلزپارٹی سے گٹھ جوڑ کرلیا تھا اور بالاتروں کی حمایت سے بننے والی بی اے پی کا وزیراعلیٰ اور بعد میں باپ کے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا ۔

2018کے متنازعہ الیکشن میں جب نئے حلیفوں کی مدد سے وہ وزیراعظم بنائے گئے تو پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری نے انھیں الیکٹیڈ کے بجائے سلکٹیڈ وزیراعظم قرار دیا تو وہ دوبارہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائیاں کیںاور دشمنوں جیسا سلوک کیا جس پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو مجبور ہوکر دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر سیاسی اتحاد کے لیے متحد ہونا پڑا۔

تمام نے مل کر پی ٹی آئی کے انتقامی وزیراعظم کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا اور ان کی اس آئینی برطرفی میں ان کے تمام سابقہ اتحادیوں نے ہی نہیں بلکہ ان کی انتقامی سیاست سے بیزار پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے بھی ساتھ دیا تھا۔

ملک میں سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنے کے واحد ذمے دار بانی پی ٹی آئی خود ہیں جنھوں نے سیاست میں اپنے سیاسی مخالفوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور قبل از وقت اسی وجہ سے اقتدار سے محروم کیے گئے۔

سیاست اور جمہوریت میں باہمی مخالفت ضرور ہوتی ہے جو جمہوری حسن کہلاتی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومت رہیں اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں مگر باہمی سیاسی اختلاف کو جمہوری اختلاف ہی رہنے دیا۔

اتحادی حکومت کی کسی پارٹی کے ساتھ اب بھی پی ٹی آئی ساتھ چلنے کو تیار نہیں اور اپنی مخالف ان تمام پارٹیوں کو اپنا سیاسی دشمن سمجھتی ہے جب کہ ملک کے حالات اس قدر خراب ہیں سب پارٹیوں کے باہمی اتحاد کے بغیر بہتری لائی ہی نہیں جاسکتی۔

مسلم لیگ ن کے بعض رہنما بھی اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ سب کو ملک کی خاطر مل کر چلنا ہوگا مگر فروری کے عام انتخابات میں تو ایسا نظر نہیں آرہا ممکن ہے انتخابی نتائج اتحادی پارٹیوں کو پھر آپس میں مل کر حکومت بنانے پر مجبور کردیں مگر پی ٹی آئی کی طرف سے کسی سے مل کر چلنے کے آثار نظر نہیں آرہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں