1

راجہ مہدی علی خاں کے من موہنے گیت (دوسرا اور آخری حصہ)

صحافت میں آنے سے پہلے گورنمنٹ کے محکمے میں کچھ عرصہ ملازمت کی تھی مگر وہ ان کی لاابالی طبیعت کی وجہ سے راس نہ آس کی تھی اسی دوران ان کی ملاقات ترقی پسند رائٹر سعادت حسن منٹو سے ہوئی انھوں نے بتایا کہ وہ بمبئی جا رہے ہیں وہاں ان کے کئی دوست فلمی دنیا سے وابستہ ہیں وہ انھیں بلا رہے ہیں۔

وہ پہلے تو بہت ٹالتے رہے پھر بمبئی جانے پر تیار ہوگئے اور اس طرح راجہ مہدی علی خاں بھی ان کے ساتھ بمبئی چلے گئے تھے، بمبئی میں ادبی سرگرمیاں اور مشاعرے بھی ہوتے تھے راجہ مہدی علی خاں نے مشاعروں میں شرکت کی تو ان کی شاعری کے چرچے ہونے لگے اسی دوران ان کی بھی کئی فلمی لوگوں سے دوستی ہوگئی اور ان کے دوست سعادت حسن منٹو کو ایک فلم کی کہانی لکھنے کا موقع بھی مل گیا یہ ایک مزاحیہ انداز کی کہانی پر مبنی فلم تھی جس میں رومانس کی بھی کافی چاشنی تھی۔

فلم کا نام تھا ’’ آٹھ دن ‘‘ اس فلم کے مکالمے بھی سعادت حسن منٹو نے لکھے تھے جب کہ فلم کا منظر نامہ مشہور فلم رائٹر اوپندر ناتھ اشک نے لکھا تھا وہ بھی منٹو صاحب کے دوست تھے، اس فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے راجہ مہدی علی خاں کو سعادت حسن منٹو کے کہنے پر ہی اس فلم میں پہلی بار گیت لکھنے کا موقعہ ملا تھا جو پہلا گیت انھوں نے لکھا تھا اس کے بول تھے:

امید بھرا پنچھی تھا ڈھونڈ رہا سجنی

یہ کہتا رہا پنچھی ہائے بچھڑ گئی سجنی

یہ ایک روایتی سا گیت تھا فلم بھی ہلکی پھلکی کہانی کی وجہ سے تھوڑی بہت چلی تھی اور اس طرح بحیثیت گیت نگار راجہ مہدی علی خاں کے سفر کا آغاز ہو گیا تھا۔

پھر فلم دو بھائی کے مشہور گیت، میرا سندر سپنا بیت گیا اور پھر فلم ’’مدہوش کے گیتوں سے راجہ مہدی علی خاں کی شہرت کا آغاز ہوا تھا فلم مدہوش کے لیے لکھے گئے ایک گیت نے بڑی دھوم مچائی تھی جو گلوکار مکیش نے گایا تھا جس کے بول تھے:

میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا

نہ دل کو جلانا مجھے بھول جانا

یہ گیت اپنے زمانے میں ہزاروں دل جلوں کے دل کی پکار بن گیا تھا اور دیکھا جائے تو اس گیت کی شہرت سے مکیش کو بھی بڑی شہرت ملی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے راجہ مہدی علی خاں فلمی گیت نگاروں کی پہلی صف میں شامل ہوگئے تھے اور ہر بڑے موسیقار کے ساتھ راجہ مہدی علی خاں نے گیت لکھنے شروع کر دیے تھے۔

اس دور کے چند بڑے بڑے موسیقاروں مدن موہن، ایس ڈی برمن، راجیش روشن اور موسیقار نوشاد کی گڈ بک میں بھی ان کا نام آگیا تھا۔ اس دور کی چند فلموں میں ایک فلم ’’ وہ کون ‘‘ اور ’’آپ کی پرچھائیاں ‘‘ ایسی فلمیں تھیں جن کے گیتوں نے سارے ہندوستان میں دھوم مچا دی تھی اور راجہ مہدی علی خاں کی شہرت آسمان کو چھونے لگی تھی اور وہ گیت تھے۔

٭نیناں برسیں رِم جھم رِم جھم

٭لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو

شاید کہ اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو

٭جو ہم نے داستاں اپنی سنائی آپ کیوں روئے

٭تباہی تو ہمارے سر پہ آئی آپ کیوں روئے

٭اگر مجھ سے محبت ہے

مجھے سب اپنے غم دے دو

ان آنکھوں کا ہر اک آنسو

تمہیں میری قسم دے دو

٭میں نگاہیں ترے چہرے سے ہٹاؤں کیسے

اور پھر 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’میرا سایا‘‘ کے گیتوں نے تو بڑا تہلکہ مچایا تھا فلم کا ہر گیت سپرہٹ تھا خاص طور پر یہ گیت تو لاجواب تھے:

٭تو جہاں جہاں بھی جائے

میرا سایہ ساتھ ہوگا

٭نینوں میں کجرا چھائے‘ بجلی سی چمکی ہائے

پھر اس دوران ایک فلم نیلا آکاش بھی ریلیز ہوگئی جس کے دلکش گیت بھی راجہ مہدی علی خاں کی کاوشوں کا نچوڑ تھے اس کے گیت لتا منگیشکر اور محمد رفیع نے گائے تھے ہر گیت سپرہٹ اور خاص طور محمد رفیع کی آواز میں ایک گیت کو تو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جس کے بول تھے:

آخری گیت محبت کا سنا لوں تو چلوں

میں چلا جاؤں گا کچھ اشک بہا لوں تو چلوں

اس دور میں قطار در قطار راجہ مہدی علی خاں کے گیتوں کو پذیرائی مل رہی تھی اور ان کے لکھے ہوئے گیتوں پر مبنی ہر فلم ہٹ ہو رہی تھی وہ دور ایسا آیا تھا کہ ہر دوسری فلم راجہ مہدی علی خاں کے گیتوں سے سجی ہوئی تھی ان کے گیت بڑے معیاری ہوتے تھے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں