6 دسمبر 1992 اور 22 جنوری 2024 صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے دو ایسی نا قابلِ فراموش تاریخیں ہیں جب بالترتیب ایودھیا میں سیکڑوں سال پرانی بابری مسجد کی شہادت اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کے افتتاح کے بدترین سانحات رونما ہوئے تھے۔
بھارت کی انتہا پسند سیاسی جماعتیں آر ایس ایس اور بی جے پی اِن دونوں گھناؤنے واقعات میں براہِ راست ملوث ہیں لیکن افسوس ہے کہ دنیا کی تمام مسلم ریاستوں نے اُف تک نہیں کی۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا مظلوم فلسطینیوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرغنہ پردھان منتری نریندر مودی نے اسلام کی مخالفت اور بھارتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ مسلمانوں کی بستیاں اور مساجد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلڈوز کی جا رہی ہیں۔ مسلم ریاستیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ابھی 14 فروری کو نریندر مودی نے متحدہ عرب امارات کے دارالخلافہ ابوظہبی میں ایک مندر کا افتتاح کیا۔مسلم ریاستوں کی بے حسی بھلا اِس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو مذہب بُتوں کی پوجا کے خلاف انقلاب لے کے آیا تھا اُس کی پیروی کرنے کے بجائے بُت پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
اِس صورتحال پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ دشمنِ اسلام اور مسلم کُش مودی نے جو ابلیسِ ثانی ہے نے اِس موقع پر عربی زبان میں جس کا اسکرپٹ دیو ناگری ہندی میں لکھا ہوا تھا ایک لمبا چوڑا بھاشن بھی دیا۔ہمارے گنہگار کانوں نے جب اِس بھاشن کو سُنا تو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا اور حالت یہ تھی جیسے دل و جگر پر چھریاں چل رہی ہوں۔ ہائے ہائے! جو سرزمین اذانوں کی آواز سے گونجتی ہے اب وہاں پوجا پاٹ کے وقت گھنٹیاں گونجا کریں گی۔
یہ وہی متحدہ عرب امارات ہیں جہاں کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان ( مرحوم) پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہا کرتے تھے اور جن کے دور میں یو اے ای اور پاکستان ایک سکے کے دو رُخ ہوا کرتے تھے اور پاک یو اے ای اشتراک ایک قابلِ رشک مثال تھا۔ یو اے ای کی تعمیر و ترقی میں پاکستانیوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ یو اے ای کو شیشہ میں اُتارنا نریندر مودی کی جادوگری کا کمال تو ہے لیکن پاکستانی سفارت کاری کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔
کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا
سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی میڈیا نے آخر اتنے بڑے واقعے کا کوئی نوٹس کیوں نہیں لیا؟ 700 ارب روپے کی لاگت سے یہ مندر 27 ایکڑ زمین پر تعمیر کیا جائے گا۔ ایک طرف سیکولر ازم کے دعویدار ملک بھارت میں دینِ اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹایا جا رہا ہے اور دوسری جانب مسلم ریاست یو اے ای میں ہندو دھرم کی پذیرائی کی جارہی ہے۔یو اے ای کی سات ریاستوں کی نمایندگی کرنے کے لیے اِس مندر کی تعمیر میں سات مینار ہوں گے۔
اِس مندر کی تعمیر میں وہی مٹیریل استعمال کیا جارہا ہے جو رام مندر کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔ اِس کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اِنٹر لوکنگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے اِس پر ہزاروں سال تک کوئی خراش نہیں آئے گی۔اگر اِس مندر کو ڈھایا نہیں گیا تو یہ ہزاروں سال تک یونہی کھڑا رہے گا۔ یہ مندر حیرت انگیز کاریگری کا نمونہ ہوگا۔ مندر میں انتہائی فنکاری سے تراشی ہوئی ہنومان جی، رام جی، سیتا جی اور گنیش جی کی مورتیاں بھی نصب ہوں گی۔
مندر کی تعمیر میں سنگِ مَر مَر کا بہترین استعمال کیا گیا ہے۔ مندر کے باہری ستونوں پر سیتا سوئمبر، رام کا بنباس اور کرشِن جی کے بچپن اور جوانی کی دلچسپ اور رومانوی حرکات و سکنات کی عکاسی کی جائے گی۔ یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ مودی اپنی اِس یاترا میں قطر بھی گئے جہاں اُنھوں نے جاسوسی کرنے والے بھارتی فوج کے متعدد قیدیوں کو بھی چھڑوایا۔
نریندر مودی کی عیاری اور مکاری کا یہ تھا ایک مختصر احوال۔ اِس کے علاوہ 2016 میں سعودی عرب اور 2019 میں یو اے ای نے نریندر مودی کو سویلین ایوارڈ سے نوازا جو کہ بھارت کی تاریخ میں کسی بھی سربراہِ مملکت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ 2014 سے 2024 تک نریندر مودی پورے 7 بار یو اے ای جاچکے ہیں جب کہ اِس تمام عرصے میں وہ مشرقِ وسطیٰ کا 15 بار چکر لگا چکے ہیں جس میں 2022 میں اُن کا یو اے ای اور کویت کا دورہ بھی شامل ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ خلیجی ریاستوں پر مشتمل ادارہ جو کہ جی سی سی کہلاتا ہے تیل سے ہونے والی آمدنی پر انحصار کرنے کے علاوہ بھارت میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہا ہے جو کہ پاکستان کے لیے دعوتِ فکر اور تشویش کی بات ہے، اگرچہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے لیکن پاکستان کے لیے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائے اور بھارت کی مستقبل کی حکمتِ عملی کو سمجھنے کی کوشش اور جوڑ توڑ کرے لیکن اِس کا کیا کیا جائے کہ پاکستان کو اپنے اندرونی سیاسی خلفشار سے ہی فرصت نہیں ہے۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مودی نے اپنے حالیہ دورہِ یو اے ای کے دوران محمد بن زاید آل نہیان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کو آئی ایم ای سی یعنی انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور کہا جارہا ہے جس کا مقصد باہمی اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔