6

سینیٹ میں عدلیہ و ججز پر کڑی تنقید، سلیکٹو جسٹس اور توہین عدالت میں تفریق کے الزام

اداروں میں بیٹھے لوگوں کو ہماری عزتیں اچھالنے کا حق نہیں، فیصل سبزواری

اداروں میں بیٹھے لوگوں کو ہماری عزتیں اچھالنے کا حق نہیں، فیصل سبزواری

 اسلام آباد: سینیٹ اجلاس میں ارکان نے عدلیہ و ججز پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے سلیکٹو جسٹس اور توہین عدالت میں تفریق کے الزامات عائد کردیے۔

قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوا۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا نے کل ایک اہم نکتہ اٹھایا، ایسا لگتا ہے لاکھوں ووٹ لینے والے اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ سب کی عزت ہے ، آئین صرف ججوں کی عزت کی بات نہیں کرتا بلکہ اراکین پارلیمنٹ کی عزتوں کی بات بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اداروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی حق نہیں کہ وہ ہماری عزتیں اچھالیں، پارلیمان سے سپریم کوئی ادارہ نہیں ہے، آپ کی عزتیں ہماری عزتیں ہیں، اگر آپ کی جانب سے سلیکٹو جسٹس ہوگی تو لوگ آواز اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ توہین ہے کیا ؟ کس کی ہوسکتی ہے اس پر بھی وضاحت ہونی چاہیے، یہاں توہین عدالت میں بھی تفریق کی جاتی ہے ، سلیم کوثر نے کئی دہائیوں پہلے کہا تھا، تم نے سچ بولنے کی جرات کی یہ بھی توہین ہے عدالت کی، واضح کرنا چاہتا ہوں اس ایوان کا نمائندہ اپنے لوگوں کی پراکسی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پگڑیوں کو فٹبال بنانے کا کہہ کر کیا پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکایا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ

فیصل سبزواری نے کہا کہ ایک چیف جسٹس اٹھتے ہیں ون کانسٹیٹیوشن ایونیو میں تھرڈ پارٹی انٹرسٹ ہوگیا تھا، ایک چیف جسٹس نے کہا نسلہ ٹاور کو گرا دو کیونکہ یہ غریب لوگوں کی جائیداد بن گئی تھی، ایک تین رکنی بنچ نے پرویز مشرف کو حق دیا کہ وہ آئین کو دوبارہ لکھ دیں، کیا ہمیں یہ آزادی ہے جیسا ایک چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایک جج اگر لاشعوری طور پر کوئی غلط فیصلہ دے دے تو بعد میں اسے درست کرلے۔

یہ بھی پڑھیں: پراکسی ثابت کریں،فیصل واوڈا کا سپریم کورٹ جج کو پھر چیلنج

انہوں نے زور دیا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب ہونا چاہیے، یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے ، ہمارے بھی تیس کارکن چار سال لاپتہ ہونے کے بعد واپس آئے کوئی اس کا نوٹس لینے کو تیار نہیں، ان کی بات کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب ہماری پارٹی کو جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں تھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی، سینیٹر چوہدری اعجاز کے کئی مرتبہ پروڈکشن آرڈر جاری کئے، اس ایوان میں بارہ لوگوں کی موجودگی میں الیکشن میں تاخیر کا بل پاس کیا گیا تو کیا یہ پارلیمنٹ کی عزت تھی؟ ایک چیف جسٹس نے کہا الیکشن کروائے جائیں تو اس پر عمل نہیں کیا گیا، ایک جج کے پاس کون سی فورس ہوتی جو وہ اپنے فیصلے پر عمل کرائے، پارلیمنٹ کی توقیر کا آئین کے حوالے سے تحفظ کرنا بہت ضروری ہے، اس کو ذاتی ایجنڈا نا بنایا جائے، جب ذاتی ایجنڈوں پر بات ہوتی ہے تو ہمیں طیش آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس تو قاضی فائز عیسی صاحب نے دیا ہے ان کا نام کیوں چھپایا جارہا ہے، اگر لاپتہ افراد کی بات کی گئی ہے تو کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم لاپتہ افراد کی بات کریں، اگر کسی جج نے لاپتہ افراد کی بات کی ہے تو ہمیں اس جج کی حمایت کرنی چاہیے، اگر ایک جج نے ہفتے کے روز عدالت کھول کر نواز شریف کی صحت کی ضمانت مانگی ہم نے اس وقت بات کیوں نہیں کی، توہین کا قانون ہے تو ہمیں بیٹھ کر اس پر قانون سازی کرنی چاہیے، یہاں بیٹھ کر ذاتی ایجنڈے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔

سینیٹر طلال چوہدری نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری مہذب دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا ہے، کسی مہذب دنیا میں عدالتیں کسی عام شہری کو بھی نوٹس نہیں کرتیں، آئین بنانے والوں کو سزا دینے سے نہیں آئین توڑنے والوں کو سزا دینے سے عدلیہ کا وقار بڑھے گا، پارلیمنٹ کی توہین کب نہیں ہوئی، وزیراعظم کو پھانسی کو لٹکایا گیا، کسی شہزادی کو اتنی جلدی نکالا نہیں جاسکتا جتنی جلدی وزیراعظم کو تاحیات نکال دیا جاتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں