28

ورکنگ ویمن کو ہراسانی، ٹرانسپورٹ، اجرت سمیت بیشتر مسائل کا سامنا، ایکسپریس فورم

ایکسپریس فورم میں اشفاق بخاری ،پروفیسر رعنا ملک اور بشریٰ خالق شریک گفتگو ہیں  ۔ فوٹو : ایکسپریس

ایکسپریس فورم میں اشفاق بخاری ،پروفیسر رعنا ملک اور بشریٰ خالق شریک گفتگو ہیں ۔ فوٹو : ایکسپریس

 لاہور:  ورکنگ ویمن کو ہراسمنٹ ، ٹرانسپورٹ ، تحفظ ، اجرت سمیت بیشتر مسائل کا سامنا ہے۔

لیبر فورس سروے کے مطابق 19 فیصد خواتین بامعاوضہ کام کرتی ہیں جبکہ 81 فیصد کے کام کو کام تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ، دیہی خواتین بھی کام کرتی ہیں ہمیں ان کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے قومی دھارے میں لانا ہوگا۔

استحصالی سوچ کا خاتمہ کرنے کیلیے گھر سے صنفی برابری کی تعلیم دینا ہوگی خصوصاََ لڑکوں کی تربیت کرنا ہوگی ، ورکنگ ویمن کے مسائل حل کرنے کے لیے پنجاب میں 16 ہاسٹلز اور 411 ڈے کیئر سینٹرز موجود ہیں ، اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں یقینی بنائی گئی ہیں، جرم ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرفی ، جرمانہ اور قید کی سزا ہوسکتی ہے ۔

ان خیالات کا اظہار حکومت ، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ’’ورکنگ ویمن کے قومی دن‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب اشفاق بخاری نے کہا کہ ہم خواتین کے مسائل کو جینڈر لینز کے ساتھ کیوں دیکھتے ہیں ؟ کام کی جگہ پر خواتین کے چھوٹے بچوں کے لیے 411 ڈے کیئر سینٹرز بنائے گئے جب میں سے 310 آپریشنل ہیں ان میں 17 ہزار بچے رہتے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رعنا ملک نے کہا کہ دیہی خواتین بھی ورکنگ ویمن ہیں جو 65 فیصد کے قریب ہیں انہیں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں انہیں بھی ورکنگ ویمن کے طور پر عزت دینا ہوگی، لیبر فورس سروے کے مطابق 19 فیصد خواتین کما رہی ہیں جبکہ باقی خواتین کے کام کو تسلیم نہیں کیا جاتا ، ہمیں خواتین کو عزت و وقار دینا ہوگا ، گھرسے ہی صنفی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے تربیت کرنا ہوگی۔

نمائندہ سول سوسائٹی بشریٰ خالق نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 22 دسمبر کو خواتین کا قومی دن قرار دیا جو خواتین کیلیے حوصلہ افزا ہے ،پاکستان کی ہر عورت دراصل ورکنگ ویمن ہے ، گھروں میں کام کرنیوالی خواتین کے کام کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں