7

آرٹیکل 63 اے پر سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل کی لارجر بینچ کو دھمکی

  اسلام آباد: آرٹیکل 63 اے کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے لارجر بینچ کو دھمکی دیدی اور کہا کہ باہر پانچ سو وکیل کھڑے ہیں دیکھتا ہوں پی ٹی آئی کے خلاف یہ بنچ کیسے فیصلہ دیتا ہے؟ چیف جسٹس نے پولیس کو طلب کرلیا اور کہا کہ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ برداشت کا مظاہرہ کیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت جاری ہے جوکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم آئے اور گزشتہ روز کی طرح دلائل کو جاری رکھا۔ سماعت میں 63 اے کے تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022ء کو جاری ہوا۔

شہزاد شوکت نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی۔

جسٹس جمال نے کہا کہ عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتا نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے؟

شہزاد شوکت نے کہا کہ مفادِعامہ کے مقدمات میں نظرثانی کی تاخیر کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، مفادِعامہ کے مقدمات کو جلد مقرر بھی کیا جاسکتا ہے، نظرثانی دو سال سے سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی تھی۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ نظرثانی درخواست تاخیر سے دائر ہوئی جس کے باعث مقرر نہیں ہوئی، میں پہلے ایک بیان دے دوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت میں بیان نہیں گزارشات سنتے ہیں، بیان ساتھ والی عمارت پارلیمنٹ میں جا کر دیں، آپ بتائیں نظرثانی فیصلے کے خلاف ہوتی ہے یا اس کی وجوہات کے خلاف ہوتی ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل کے دلائل بہت میٹھے تھے، چیف جسٹس نے مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ آج کے دلائل کل سے بھی زیادہ میٹھے ہوں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یعنی آپ کو کل کے دلائل پسند آئے تھے؟ جسٹس نعیم افغان نے لقمہ دیا کہ شیریں اور تلخ کی ملاوٹ سے ہی ذائقہ بنتاہے۔

وکیل علی ظفر نے اپنی بات کو آگے بڑھایا اور کہا کہ میں بتانا چاہتاہوں کہ آج میں تلخ دلائل دوں گا، میں نے درخواست دائر کی لیکن سپریم کورٹ کے آفس نے منظور نہیں کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں درخواست کا بتا دیں، آپ نے صبح دائر کی ہوگی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے بانی پی ٹی آئی سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، وہ سابق وزیراعظم ہیں اور درخواست گزار بھی ہیں اور انہیں آئین کی سمجھ بوجھ ہے انہیں معلوم ہے کہا کہنا یے کیا نہیں اس لیے مجھے اجازت دیں کہ عمران خان سے اس معاملے پر مشاورت کرلوں۔

اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ دلائل اپنے شروع کریں۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ یعنی آپ میری بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست کو مسترد کر رہے ہیں؟

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ آپ کل بھی ملاقات کرسکتےتھے، علی ظفر نے کہا کہ وہ جیل میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرنی تھی تو کل بتاتے عدالت کوئی حکم جاری کردیتی، ماضی میں ویڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کو بلایاتھا، وکلاء کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل طیب مصطفٰین کاظمی نے پانچ رکنی لارجر بنچ کو دھمکی دے دی۔ طیب مصطفین کاظمی نے کہا کہ  باہر پانچ سو وکیل کھڑے ہیں میں دیکھتا ہوں پی ٹی آئی کے خلاف یہ بنچ کیسے فیصلہ دیتا ہے؟

یہ پڑھیں : سپریم کورٹ کے باہر پی ٹی آئی وکلا کا احتجاج، چیف جسٹس کیخلاف شدید نعرے بازی

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ملکی اداروں کو اس طرح دھمکا کر چلانا چاہتے ہیں؟ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ برداشت کا مظاہرہ کیا، میری عدم برداشت کی ایسی تربیت ہی نہیں ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کتنے اراکین پارلیمنٹ کو جیل بھیجا ذرا بتائیں، کوئی جتنا مرضی برا بھلا کہتا رہے ہم کیس چلائیں گے۔

طیب مصطفین کاظمی نے کہا کہ پی ٹی آئی اس کیس کی متاثرہ ہے، یہ عدالتی بنچ درست نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے حکم دیا کہ پولیس والوں کو بلایا جائے اس پر وکیل نے کہا کہ بلائیں پولیس کو آپ کا کام ہی یہی ہے۔

چیف جسٹس بولے کہ ہم اپنی توہین برداشت نہیں کریں گے۔ جسٹس مظہر عالم میاں نے کہا کہ عدالت میں کھڑے ہو کر سیاسی باتیں نہ کریں، جب کہ وکیل طیب مصطفین کاظمی کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب دیکھیے گا کچھ یوٹیوبرز بھی ساتھ باہر جائیں گے اور پھر تبصرے ہوں گے لگتا ہے عدالت میں جو ہوا مقصد پورا ہوگیا۔

جسٹس جمال نے کہا کہ یہ ٹرینڈ بن چکا ہے فیصلہ پسند نہ ہو تو عدالتی بنچ پر ہی انگلیاں اٹھانا شروع کر دو، ہم یہاں عزت کیلئے بیٹھے ہیں یہ کوئی طریقہ نہیں ہے جس کے دل میں جو آتا ہے کہتا چلا جاتا ہے ہم پیسوں کے لیے جج نہیں بنے، آپ کو پتا ہے جتنی جج کی تنخواہ بنتی ہے اتنا تو وکیل ٹیکس دے دیتا ہے آئینی اداروں کو دھمکیاں لگانے کا سلسلہ بند کریں۔

جسٹس جمال نے کہا کہ کہا جاتا ہے عدلیہ میں دو گروپ بنے ہوئے ہیں کیا ہم قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ممبران ہیں جو گروپنگ کریں گے؟ اگر کوئی جاہل یا ان پڑھ ایسی بات کرے تو سمجھ بھی آتا ہے یہ جو شخص یہاں آیا تھا میں نے اسے سپریم کورٹ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ شخص شکل سے تو خاندانی لگ رہا تھا، کیا یہ اپنے بزرگوں کو بھی ایسے ہی کہتا ہوگا؟ ہم اپنی نوجوان نسل کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ چند لوگ ملک یا اداروں میں ہیں جو چاہتے ہیں پاکستان اسی طرح چلایا جائے جو ہمدردی تھی وہ بھی شاید آپ کو اب نہ ملے۔

 





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں