29

“کنگ” نے بادشاہت کیوں چھوڑ دی

ہم آپ کو کپتانی سے ہٹا رہے ہیں خود استعفیٰ دے دیں تو اچھا رہے گا ورنہ برطرفی سے بہتر تاثر سامنے نہیں آئے گا (فوٹو: ایکسپریس ویب)

ہم آپ کو کپتانی سے ہٹا رہے ہیں خود استعفیٰ دے دیں تو اچھا رہے گا ورنہ برطرفی سے بہتر تاثر سامنے نہیں آئے گا (فوٹو: ایکسپریس ویب)

یہ 2019 کی بات ہے جب وسیم خان نے سرفراز احمد سے یہ کہا، کپتان کو ہواؤں کا رخ تبدیل ہونے کا اندازہ تھا اور وہ جانتے تھے کہ جلد پی سی بی کوئی بڑا فیصلہ کرنے والا ہے، لہٰذا رفقا کے مشورے سے ذہن بنا چکے تھے، انھوں نے سی ای او کو غور سے دیکھا اور صرف ایک جملہ کہا “آپ کو مجھے نکالنا ہے تو نکال دیں میں استعفیٰ نہیں دوں گا” یہ سن کر وسیم خان کو تھوڑی حیرت ہوئی کہ کہاں ہمارے سامنے بات کرنے لگا، انھوں نے جواب دیا ٹھیک ہے آپ کی مرضی اس کے تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر ٹکرز چلنے لگے کہ سرفراز احمد کو کپتانی سے برطرف کردیا گیا ہے۔

پورے کیریئر میں بورڈ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرنے والے سرفراز نے پہلی بار کوئی اسٹینڈ لیا مگر تب تک دیر ہوچکی تھی، کہا یہی جاتا ہے کہ چونکہ انھوں نے ورلڈکپ میں عمران خان کا مشورہ نہیں مانا تھا اس لیے انہی کے کہنے پر کپتانی سے ہٹایا گیا، البتہ جب میں نے اس حوالے سے تب کے چیئرمین احسان مانی سے پوچھا تو انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا تھا، اس وقت بابر اعظم سب کی آنکھ کا تارا تھے کیونکہ ان کی کارکردگی بہترین تھی۔

سوشل میڈیا کا دور ہے انھیں کنگ تک کا ٹائٹل دے دیا گیا، انسان کی فطرت ہے جب ہر طرف سے پذیرائی ہو وقت اچھا چلے تو تھوڑا رعونت آ ہی جاتی ہے، بابر نے بھی “کنگ” کا ٹائٹل سر پر سوار کر لیا، سوشل میڈیا پر ان کے جانثاروں کی تعداد بہت بڑی ہے، ہر طرف بابر بابر ہونے لگا، سابق کرکٹرز نے ان کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیے، سابق چیئرمین رمیز راجا تک ان کے پیچھے رہ کر اپنی کوتاہیاں چھپاتے رہے، جب تک بابر کے بیٹ نے ساتھ دیا سب ٹھیک رہا لیکن پھر وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ بابر بالکل سرفراز والی پوزیشن میں پہنچ گئے۔

فرق صرف یہ تھا کہ کسی وسیم خان ٹائپ آفیشل نے ان سے استعفیٰ نہیں مانگا، انھیں ان ڈائریکٹ طریقوں سے پیغامات ملتے رہے، سرفراز اور بابر میں بہت فرق ہے، سرفراز کی ساتھی کرکٹرز اب بھی بہت عزت کرتے ہیں، آپ شاداب خان، حسن علی یا کسی سے بھی پوچھ لیں کپتان کپتان کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی، حالانکہ سرفراز فیلڈ میں انھیں ڈانٹ تک دیا کرتے تھے، سرفراز نے اپنی انفرادی کارکردگی کا خیال نہ رکھا اور ٹیم کا ہی سوچتے رہے، جب تک فتوحات ملیں سب ٹھیک رہا، جہاں شکستیں ہوئیں وہاں سب ان کے اعدادوشمار لے کر سامنے آ گئے، بابر کا انداز مختلف رہا انھوں نے اپنے دوستوں کو خوب نوازا، کافی عرصے تک کپتانی کو بیٹنگ پر حاوی نہ ہونے دیا، ٹیم ہارتی بھی تو وہ سب سے نمایاں نظر آتے، لوگ یہ باتیں کرنے لگے کہ اکیلا بابر کیا کرے، البتہ ہر عروج کو زوال ہے بابر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، ان کے بیٹ نے ساتھ چھوڑ دیا، اب وہ نوبت آ گئی کہ انھیں ٹیسٹ میں کوئی ففٹی بنائے بھی برسوں گزر گئے، وائٹ بال میں بھی اسٹرائیک ریٹ وغیرہ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں، بابر نے فیلڈ نہ ہی باہر زیادہ دوست بنائے، جو تھے وہ بھی خلاف ہوگئے۔

اس میں ان کی بھی بڑی غلطی تھی، جب سے وہ قیادت کے چکر میں پڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، بابر جیسے خداداد صلاحیتوں کے حامل کرکٹر کو سیاست سے دور رکھنا چاہیے، آپ ویراٹ کوہلی کی مثال لے لیں، ایک زمانے میں بابر کا ان کے ساتھ موازنہ ہوتا تھا، ان کے آئوٹ آف فارم ہونے پر بابر نے ٹویٹ کر کے حوصلہ بھی بڑھایا تھا آج کوہلی ویسے ہی پرفارم کر رہے ہیں مگر بابر پیچھے چلے گئے، کھیل سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں ہوتا، بابر نے سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے میں بورڈ کو آنکھیں دکھائیں، دیگر سینئرز کے ساتھ مل کر آئی سی سی کی آمدنی سے شیئر تک معاہدوں کا حصہ بنوا لیا لیکن اس کے بعد سے آپ ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لے لیں، چھوٹی ٹیموں تک سے شکستیں ملیں۔

بابر سلیکشن کمیٹی کو کسی خاطر میں نہیں لائے، اسی لیے سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم نے انھیں ضدی تک قرار دیا، وہ جلدی ناراض ہو جایا کرتے تھے، ٹیم کو بدترین شکستیں ہوئیں انھوں نے قیادت نہ چھوڑی پھر جب ذکا اشرف نے پیغام بھجوا دیا کہ وہ کپتان کو تبدیل کر رہے ہیں تو مستعفی ہو گئے، اس کے بعد انھیں دوبارہ یہ ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن نجانے کون ان کا مشیر ہے جس کے کہنے پر ورلڈکپ کیلیے دوبارہ کپتان بن گئے۔ اس وقت شاہین آفریدی کو ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے کیونکہ صرف ایک سیریز کی بنیاد پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، بابر کو ان کیلیے اسٹینڈ لینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کیا اور خود سامنے آگئے جس سے ٹیم کا اتحاد چکنا چور ہوگیا، ایونٹ میں پاکستان کو امریکا تک نے ہرا دیا، بطور کپتان بابر کا فرض تھا کہ ذمہ داری قبول کرتے شائقین سے معافی مانگتے مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔

ایونٹ کے بعد مستعفی ہونے کا درست وقت تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، اب چند ماہ بعد دوسری بار عہدہ چھوڑا کیونکہ انھیں نوشتہ دیوار صاف نظر آنے لگا تھا، کنگ نے بادشاہت کیوں چھوڑ دی، سب یہی سوال پوچھ رہے ہیں حالانکہ وجوہات سب کے سامنے ہیں، بابر جیسے بیٹرز بہت مشکل سے ملتے ہیں، انھیں اپنی غلطیوں کا جائزہ لینا چاہیے، مشیر بھی تبدیل کریں ،ماضی میں اصل بادشاہوں کا بھی چاپلوس درباریوں نے بیڑا غرق کیا تھا، بابر کو بھی ایسے لوگوں سے محتاط رہنا چاہیے، کوہلی کی طرح انھیں بھی سوشل میڈیا پر آ کر کہنا چاہیے کہ وہ کنگ نہیں ایک کرکٹر ہیں، اس لقب سے نہ پکاریں، قیادت اور دیگر سیاست سے دور رہ کر وہ صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دیں تو پھر سے ماضی جیسا پرفارم کرنے لگیں گے، وہ ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں انھیں ایسے ضائع نہیں ہونا چاہیے، شائقین سے بھی درخواست ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کو اس حد تک آسمان پر نہ چڑھائیں کہ وہ خود کو کھیل سے بھی بڑا سمجھنے لگے، آپ لوگ تو پرفارم نہ کرنے پر زمین پر پٹخ بھی جلدی دیتے ہیں لیکن تکلیف اس بندے کو ہوتی ہے، خیر اب مجھ سمیت بابر کے تمام مداح انھیں نئے روپ میں دیکھنے کے منتظر ہیں، امید ہے کہ وہ بھی مایوس نہیں کریں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں