اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ جزا و سزا کا اہتمام معاشرے میں خیر و شرکی تمیز سکھاتا ہے، اگرچہ ہر معاشرے میں چھوٹے بڑے کی تمیز زندگی کا جزو لاینفک ہے لیکن اسلامی معاشرہ میں اسے جو اہمیت حاصل ہے، اس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ہم کسی بزرگ کو آتے جاتے دیکھ کر تعظیماً ٹھٹک جاتے تھے اور جب تک وہ بزرگ گزر نہیں جاتے تھے وہیں رکے رہتے تھے۔ بزرگوں کو نہایت احترام سے سلام کرنا تربیت کا سب سے اہم حصہ تھا، اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ جہاں اور بہت سی تبدیلیاں ہو رہی ہیں وہاں معاشرہ پر بھی ان کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تاہم بزرگوں کو پوری دنیا میں فوقیت دی جاتی ہے۔
بزرگ شہریوں کو دانش مندی اور تجربہ کا ستون مانا جاتا ہے۔ بعد میں آنے والی نسلیں اُن سے بہت کچھ سیکھتی ہیں اور اُن کی رہنمائی زندگی کی تاریکیوں میں ایک مشعل کی طرح روشنیاں فراہم کرتی ہیں۔ماضی میں بزرگوں کے حقوق کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جس کے وہ مستحق تھے، تاہم قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر ان کا اب خاص خیال رکھا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ کے اصول برائے بزرگ شہری جو 1991 میں وضع اور منظور کیے گئے تھے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اِس کے علاوہ میڈرڈ کا بین الاقوامی لائحہ عمل برائے عمر رسیدہ افراد (2002) بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کے لیے خصوصی برتاؤ کا ایک سنگِ میل ہے۔ یہ دستاویزات معاشرے میں معمر افراد کی عظمت اور وقارکی آئینہ دار ہیں جو کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بزرگ شہریوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک خاکہ فراہم کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے بوڑھے ملک و قوم کا انمول اثاثہ اور سرمایہ ہوتے ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اسلام بزرگوں اور اُن کے احترام کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ’’خدائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ جس کا سلیس اور صاف ترجمہ ہے‘‘ بزرگوں کی خطا کو پکڑنا بھی خطا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ جب تم اپنے والدین کو عمر کے آخری حصے میں پاؤ تو ان کی زیادہ سے زیادہ تکریم اور خدمت کرو اور اُن کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آؤ۔
ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ’’ ہوں‘‘ تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے،کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بے بس اور لا چار ہوجاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد انھوں نے بزرگ شہریوں کی قدر و منزلت کی جانب خصوصی توجہ دی۔
آپ کو یاد ہوگا کہ اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ایک اجتماع کے دوران انھوں نے اس جانب بعض اقدامات کا عندیہ بھی دیا تھا۔حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری سینئر سٹزن ایکٹ 2012، پنجاب سینئر سٹیزنز ویلفیئر اینڈ ری ہیبلی ٹیشن بل 2013, کے پی کے میں سینئر سٹیزنز ویلفیئر ایکٹ 2014، بلوچستان میں سینئر سٹیزنز ویلفیئر ایکٹ 2017 اور سندھ میں سینئر سٹیزنز ویلفیئر ایکٹ 2017 کا نفاذ کیا ہے۔
اِن قوانین میں بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود سے متعلق کاؤنسلزکا قیام، سماجی تحفظ کے لیے فلاحی فنڈ، سینئر سیٹزن کارڈ اور اولڈ ایج ہوم شامل ہیں۔ مزید یہ کہ انھیں ہر قسم کے تشدد سے تحفظ فراہم کرنا،کسی بھی ظالمانہ برتاؤ سے بچانا، بہترین طبی سہولیات کی فراہمی، مالی معاونت، قانونی تحفظ کی فراہمی، سماجی سرگرمیوں میں شرکت، اُن کی رہائش اور نقل و حمل اور عوامی جگہوں پر ان کی مفت اندراج کی سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔آئین کے آرٹیکل 35 میں بعض اہم اقدامات تو شامل ہیں لیکن بزرگ شہریوں کا تذکرہ تک بھی شامل نہیں ہے۔
امید تو یہ تھی کہ اپنے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے خصوصی اقدامات کریں گے لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس جانب توجہ دینا تو درکنار ان کے دور حکومت میں اُن اقدامات پر بھی پوری طرح عمل نہیں ہورہا جو ان کے بڑے بھائی نے اٹھائے تھے۔
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں