8

’’الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘

’’الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘ کے معنی ہیں: الأمر یعنی فرمان اور حکم دینا۔ النھی یعنی روکنا اور منع کرنا۔ معروف یعنی پہچانا ہُوا، نیک، اچھا۔ منکر یعنی ناپسند، ناروا اور بد۔

ایک انسان جب دنیا میں آتا ہے تو اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا، اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک گم راہی کا راستہ اور دوسرا حق اور نجات کا، گم راہی کے راستے کی دعوت دینے والا شیطان ہوتا ہے، حق کے راستے کی دعوت والے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اصحاب رضی اﷲ عنھم اور صالحین امت و علمائے کرام ہوتے ہیں، جن کا کام ہدایت والے راستہ کی راہ نمائی کرنا اور گم راہیوں والے راستے سے روکنا ہوتا ہے، جس کو تبلیغ اور دعوت کہتے ہیں۔

تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ ’’الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘ کے ذریعے انسان کی پوری زندگی کتاب و سنت کے مطابق ہوجائے۔ رب چاہی زندگی کو گزاریں اور من چاہی زندگی سے اجتناب کریں۔ اسی لیے تو اﷲ تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ کو مبعوث کیا تھا۔

الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت اور شرائط:
الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر، اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون اور فروع دین میں سے ہیں۔ قرآن کریم اور معصوم راہ نماؤں نے اس فریضے کے بارے میں کافی تاکید کی ہے۔ صرف اسلام ہی نہیں بل کہ دوسر ے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لیے ان کا سہارا لیا ہے۔ لہٰذا اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔

اصطلاح میں معروف ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے تقرب اور لوگوں کے ساتھ نیکی کے عنوان سے پہچانی جائے اور ہر وہ کام جسے شارع مقدس نے بُرا جانا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے اسے منکر کہتے ہیں۔

معروف اور منکر کے وسیع دائرے :
معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بل کہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر بُرے اور ناپسند کام کو شامل ہے۔ دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و گذشت، امید و رجاء، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحمی، والدین کا احترام، سلام کرنا، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت، طہارت و پاکیزگی، یعنی ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور دیگر سیکڑوں نمونے۔

اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے، جیسے: ترک نماز، روزہ نہ رکھنا، حسد، کنجوسی، جھوٹ، تکبّر، غرور، منافقت، عیب جوئی اور تجسس، افواہ پھیلانا، چغل خوری، ہوا پرستی، بُرا کہنا، جھگڑ ا کرنا، بدامنی پھیلانا، اندھی تقلید، یتیم کا مال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری، رشوت ستانی، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ۔ 

الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت: 
پروردگار عالم فرماتا ہے، مفہوم: ’’مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘ (سورہ توبہ)

رسول خدا ﷺ ایک دل نشیں مثال میں معاشرے کو ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کشتی میں سوار افراد میں سے کوئی یہ کہے کہ کشتی میں میرا بھی حق ہے لہٰذا میں اس میں سوراخ کر سکتا ہوں اور دوسرے مسافر ا س کو اس کام سے نہ روکیں تو اس کا یہ کام سارے مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔ اس لیے کہ کشتی کے غرق ہونے سے سب کے سب غرق اور ہلاک ہوجائیں گے اور اگر دوسرے افراد اس شخص کو اس کام سے روک دیں تو وہ خود بھی نجات پاجائے گا اور دوسرے مسافر بھی۔ (بہ حوالہ: صحیح بخاری)

اسلام صرف انسانوں کے متعلق ہی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کا حکم نہیں دیتا ہے بل کہ جانوروں کے سلسلے میں بھی ا س کو اہمیت دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بوڑھا عابد عبادت میں مشغول تھا کہ اس کی نگاہ دو بچوں پر پڑی جو ایک مرغے کے پر کو اکھاڑ رہے تھے۔ عابد ان بچوں کو اس کام سے روکے بغیر اپنی عبادت میں مصروف رہا، خدا وند عالم نے اسی وقت زمین کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کو نگل جا۔

شرائط ’’الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر‘‘: علمائے کرام نے الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کے کچھ شرائط بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔

(1) معروف اور منکر کی شناخت :
الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی سب سے اہم شرط معروف اور منکر، ان کے شرائط اور ان کے طریقہ کار کو جاننا ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص معروف اور منکر کو نہ جانتا ہو تو وہ کس طرح ا س کو انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہے یا اس سے روک سکتا ہے ؟ ایک ڈاکٹر اور طبیب اسی وقت بیمار کا صحیح علاج کر سکتا ہے جب وہ مرض ، ا س کی نوعیت اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہو۔

(2) تاثیر کا احتمال اور امکان: 
الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کی دوسری شرط امر و نہی کی تاثیر کا احتمال اور امکان پایا جاتا ہو۔ الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر ایک بے کار اور بے مقصد کام نہیں ہے بل کہ ایک عمل ہے حساب و کتاب اور خاص قوانین و شرائط کے ساتھ۔ اس فریضے کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خدا وند عالم نے تاثیر نہ رکھنے کے قوی گمان کے باوجود بھی الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر کو واجب قرار دیا ہے۔

گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر دنیا میں سزا:
گناہوں سے روکنے کی کوشش نہ کرنے پر آخرت کی سزا تو الگ رہی، اس کے علاوہ دنیا میں بھی سخت سزا ہوگی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی قوم میں ہو اور وہاں گناہ کے کام ہو رہے ہوں وہ گناہ کرنے والوں کو گناہ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو، (پھر بھی) نہ روکے تو اﷲ تعالیٰ (گناہ سے روکنے میں غفلت کرنے والوں کو) مرنے سے پہلے عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ (ابوداؤد)

اب دنیا میں آنے والے عذاب عمومی بھی ہوسکتے ہیں، جیسے زلزلہ، طوفان، قحط و خشک سالی، مہنگائی، آپس کے لڑائی جھگڑے، قومیت و وطنیت کے نام پر قتال، ظالم حکم رانوں کا مسلط ہونا وغیرہ۔ اسی طرح خصوصی نوعیت کے مختلف عذاب بھی ہوسکتے ہیں، جیسے ذاتی اور خاندانی دشمنی، اولاد کا نافرمان ہونا، قسم ہا قسم کی بیماریاں، بھوک، افلاس، تنگ دستی وغیرہ، یہ سب اجتماعی انفرادی گناہوں کا وبال ہے۔

گناہ گاروں کی بستی الٹ دی گئی: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ فلاں شہر کو الٹ دو، اس کے باشندوں سمیت، پس جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: باری تعالیٰ! بے شک اس میں تیرا فلاں بندہ ہے جس نے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی ؟ تو ارشاد باری تعالیٰ ہُوا : اس شہر کو الٹ دو، اس نیک بند ے پر اور ان لوگوں پر، کیوں کہ میری خاطر (یعنی میری نافرمانیوں اور کھلے عام گناہوں کو دیکھ کر) کبھی اس کے چہرے کا رنگ بھی نہیں بدلا۔ 

( بہ حوالہ: شعب الایمان)

اور ایک موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ نیک کاموں کا حکم کیا کرو اور بُرے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب نازل کرے، پھر تم اس سے (عذاب دور کرنے کی) دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔‘‘ (ترمذی)

اﷲ تعالی ہم سب کو نیکی کا حکم دینے اور منکرات سے بچنے کی تلقین کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں