12

وقت کی قدر و اہمیت

پروردگار عالم کی ذات پاک کی عطا کردہ زندگی میں، ساعتیں، لمحے، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے… تو گزرنے کے اس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں۔ ماہ و سال اور صدیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر وقت گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ وقت کبھی ختم نہ ہونے والے ایسے سفر کا نام ہے کہ جس کی کوئی منزل نہیں۔

مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لاسکے۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔

الحمداﷲ! ہم اﷲ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ رحمت سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے… آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل ہونے پر خوش قسمتی کے عظیم اعزاز سے نوازے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش قسمتی کا یہ عظیم اعزاز ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کریں۔

وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینی پڑے گی… کسی غیر مسلم کے آگے جھکنا نہیں پڑے گا… جھوٹے آقاؤں اور خداؤں سے ہدایات لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی … نہ ہی اس کے لیے ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار درکار ہیں۔

بس ذرا… دل کے کسی ایک گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونی چاہیے۔

الحمد ﷲ! دنیا کی سب سے عظیم کتاب میں اﷲ کے اور دنیائے انسانیت کے سب سے عظیم راہ بر، ہادیٔ عالم، محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔

بات مزید آگے بڑھانے سے قبل یہ بات اور نکتہ پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جتنی بڑی ذات ہوگی، اس کے اتنے ہی بڑے اہم اور روشن اصول ہوں گے۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالق کائنات اﷲ تعالی سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباس بشریت میں ملبوس ہادیٔ عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی راہ بر نہیں۔

اب بھلا ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اﷲ تعالی کسی کم تر چیز کی قسم بارہا کھائے۔ پروردگار عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے

سورہ الفجر میں، وقت فجر اور عشر ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے، مفہوم: ’’فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمت شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔‘‘

پھر ایک مقام پر رب قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی، مفہوم: ’’رات کی قسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے) اور دن کی قسم جب وہ چمک اٹھے۔‘‘

اسی طرح سورہ الضحیٰ میں رب کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’قسم ہے وقت چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘

پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورہ العصر میں زمانہ کی قسم کھائی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے ’’زمانے‘‘ کو برا کہتے ہیں، تو یہ سخت گناہ ہے کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: ’’زمانہ کی قسم! (جس کی گردش انسانی حالات پر شاہد ہے) بے شک! انسان خسارے میں ہے (کیوں کہ وہ اپنی عمر عزیز گنوا رہا ہے)۔‘‘

حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’صحت اور فراغت، اﷲ کی طرف یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔‘‘

رب غفور الرحیم… انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو ان میں سے اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بنا پر انسان ادھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نہ کوئی دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت کا سامان۔

حضور سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مقدس کا مفہوم ہے: ’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (بارگاہ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ اولاً، زندگی کیسے گزاری۔ ثانیاً، جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ ثالثاً، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ اربعاً، جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘

اسی طرح کا ایک اور فرمان رسول جس کے راوی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3) محتاجی سے پہلے تونگری کو۔ (4) مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘

اگر ہم اپنی اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمین پائیں گے۔۔۔ ؟ یقیناً نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات… کھانے پینے… گھومنے پھرنے… سیر وسیاحت کرنے… ہوٹلنگ کا مزہ چکھنے… فضول گپ شپ کرنے… فلمیں ڈرامے دیکھنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔

یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ تلخ و شیریں یادوں سے بھرا 2024ء کا سال ماضی کا حصہ بن گیا۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا … مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس کے سر پہ یہ دنیا قائم ہے۔ مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ رب قدوس کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر نہیں۔

قارئین محترم! ہمیں وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر… نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے… اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا کے انمول ہتھیاروں سے ناکام بنا سکتے ہیں۔

منزل دور نہیں … قریب ہے، بہت ہی قریب کہ رب رحمٰن ہے۔

اﷲ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق وہمت عطا فرمائے۔ آمین

کچھ ایسے کام کرو، جو تم کو زندہ رکھیں

صدیاں کشید کرلو، لمحوں کی زندگی سے





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں