6

سوال،علم و آگہی کی بنیاد

علم و آگہی کے میدان میں سوال کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔سوال انسانی ذہن کی ایک منفرد صلاحیت کا اظہار ہے۔سوال انسانی فکر اور تجسس کا بنیادی عنصر ہے۔یہ انسانی فطرت کا ایک اہم حصہ ہے اور یہی عمل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز بناتا ہے۔یہ ذہنی ترقی اور ارتقا کا ذریعہ بنتا ہے۔سوال کرنا نہ صرف علم کے دروازے کھولتا ہے بلکہ تحقیق،تجربے اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔

علم کے حصول کا ذریعہ سوال علم کی بنیاد ہے۔ جب ہم سوال کرتے ہیں تو ہم کسی چیز کی حقیقت جاننے کے لیے یا وضاحت حاصل کرنے کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں۔تاریخ کے عظیم سائنس دان،فلسفی اور مفکرین نے سوالات کی بنیاد پر نئے نظریات اور ایجادات کو جنم دیا۔مثال کے طور پر آئن سٹائن کا نظریہء اضافیت ایک سوال سے شروع ہوا۔

وہ سوال یہ تھا کہ کیا ہو گا اگر میں روشنی کی رفتار سے سفر کروں۔اس سوال نے جدید سائنس خاص کر آسٹرو فزکس کے دروازے کھول دئے۔آج ہر روز کائنات کی وسعتوں میں جھانکا جا رہا ہے اور بے شمار نئی دریافتیں ہو رہی ہیں۔جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے تو کائنات کی عمر کے حوالے سے تمام گذشتہ اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔نئی نئی کہکشائیں دریافت ہو رہی ہیں اور نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔

تفکر کی تحریک۔سوال کرنا انسان کو تفکر اور تدبر کی جانب مائل کرتا ہے۔جب ہم کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ہمارا ذہن ممکنہ جوابات تلاش کرنے کے لیے کام کرنے لگتا ہے۔اس عمل سے نہ صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہمارے ذہن کی تخلیقی صلاحیتیں نشو و نما پاتی ہیں۔سوالات ہمیں نئی راہوں سے آشنا کرتے ہیں اور نئی جہتوں سے روشناس کر تے ہیں۔سوالات ہمیں نئے زاویوں سے غور کرنے اور دیکھنے کے مواقع مہیا کرتے ہیں،یوں مسائل کو بہتر طور پر سمجھنے اور حل کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔

سیکھنے کا عمل۔تعلیم کے میدان میں سوال کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ایک اچھا طالب علم وہی ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ سوالات پیدا کرتا ہے اور اپنے اساتذہ ،کتابوں اور گرد و پیش سے جوابات حاصل کرتا ہے۔اساتذہ بھی سوالات کرتے ہیں،اس طرح سوالات کے ذریعے طلبا کی سوچ کو متحرک کرتے ہیں، ان کی سمجھ بوجھ کو بڑھاتے ہیں اور اپنے علم کو بھی وسعت دیتے ہیں۔سوالات کے بغیر سیکھنے کا عمل ادھورا اور غیر موئثر ہو سکتا ہے۔سوالات کے ذریعے ہی طالب علم اسباق میں بامعنی شرکت کرتا ہے۔

امام ابوحنیفہ اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے کہ عام طور پر سوالات کے فوری جوابات مکمل اور صحیح نہیں ہوتے۔صحیح جواب تک پہنچنے کے لیے کئی supplimentaryسوال ضروری ہوتے ہیں۔دنیا کی تمام پارلیمان میں یہی طریقہ رائج ہے کہ ممبر پارلیمان سوال کرتا ہے جس کا متعلقہ شعبے سے جواب حاصل کیا جاتا ہے۔اس جواب کو پارلیمان میں پیش کر کے ممبران کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہSupplimentaryسوالات کریں تا کہ بہتر سے بہتر جواب حاصل ہو۔

تخلیقی صلاحیتوں کا فروغ۔سوال کرنا تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے۔جب ہم غیر معمولی سوالات کرتے ہیں تو ہمارے اساتذہ ان کے غیر معمولی جوابات حاصل کرنے کے لیے تخلیقی راستے تلاش کرتے ہیں۔یہ عمل ہمیں نئی ایجادات اور خیالات کی طرف لے جاتاہے۔ہرایجاد کے پیچھے ایک سوال ضرور ہوتا ہے جو اس ایجاد کا محرک ہوتا ہے۔مسائل کا حل۔زندگی میں مختلف مسائل کا سامنا کرتے وقت سوال کرنا ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی طالب علم کوئی سوال کر رہا ہو تو وہ اس سوال کو مختلف طریقوں سے دیکھ کر اور مزید سوالات پیدا کر کے اس کا جواب تلاش کر سکتا ہے۔

خود شناسی۔ سوالات صرف بیرونی دنیا کے بارے میں نہیں ہوتے بلکہ وہ انسان کو اپنی ذات کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیو ٹالسٹائی اپنے مشہور ناول اینا کیرینیناAnna Kereninaمیں ایسے ہی سوالات سے بحث کرتا نظر آتا ہے۔میں کون ہوں۔میں یہاں کیوں ہوں۔ میری زندگی کا مقصد کیا ہے۔موت کیا ہے۔کیا میں مرنے کے بعد مکمل طور پر فنا ہو جاؤں گا،یا باقی رہوں گا۔ کیا آخرت ہے۔مجھے اس دنیا میں کس راستے پر چلنا ہے تاکہ آخرت میں سرخرو ہو سکوں۔ایسے سوالات انسان کو اپنی زندگی کے اہم پہلوؤں پر غور کرنے کا موقع دیتے ہیں۔

معاشرتی ترقی۔ہم جس معاشرے میں رہتے اور جیتے ہیں،وہ ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ ہمیں یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ گلا سڑا نہ ہو۔ہمارے معاشرے کو زندہ معاشرہ ہونا چاہیے اور ہمارے معاشرے کو ترقی بھی کرتے رہنا چاہیے روحانی اورمذہبی پہلو۔سوالات انسان کو روحانی اور مذہبی حقائق کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔مذہب کے میدان میں سوالات ہمیشہ سے اہم رہے ہیں ۔ اکثر مذاہب سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ قرآنِ کریم عقل والوں کو مخاطب کرتا ہے۔سوال کی حوصلہ افزائی کرتا اور تفکر و تدبر کی جانب بلاتا ہے۔اﷲ کی اس کتاب میں یسئلونک یعنی تم سے سوال کرتے ہیں،دس سے زیادہ بار آیا ہے۔یہ قرآن کی اپنی شہادت ہے کہ نبی پاکﷺ سے سوالات کیے جاتے تھے۔

اﷲ نے نبیﷺ سے کیے گئے سارے سوالات کے جوابات دئے۔یہ شہادت اس بات کی غماض ہے کہ سوال کو ہر حالت میں اہمیت دینی ہے۔ قرآن کریم میں انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ اٹھاؤ اپنی نظریں اور دیکھو آسمان کی طرف۔تمھیں اس میں کوئی خرابی اور تفاوت نظر نہیں آئے گا۔

یہ کائنات پر غور و فکر کی کھلی دعوت ہے۔تحقیق و تجسس۔تحقیق کا عمل سوالات کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ایک محقق کسی بھی موضوع پر سوال اٹھاتا ہے اور پھر ان کے جوابات تلاش کرنے کے لیے تحقیق کرتا ہے۔اپنی تحقیق کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔یہ عمل نئی معلومات اور ایجادات کا موجب بنتا ہے۔ان نکات سے واضح ہوا کہ سوال انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں