6

کرم امن معاہدہ، اچھی پیش رفت

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں صوبائی ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں تین ہفتوں تک جاری رہنے والے جرگے (پنچایت )کے ارکان نے آخرکار امن معاہدہ پر دستخط کردیے ہیں ، امن معاہدہ کے تحت علاقے میں قائم تمام نجی مورچے یا بینکرز ختم کرنا ہوں گے، فریقین کے پاس موجود بھاری ہتھیار جرگے (پنچایت) اور حکومت کے حوالے کرنا ہوںگے۔

اطلاعات کے مطابق کے پی حکومت نے امن معاہدہ طے پاتے ہی ہفتہ 4جنوری سے ضلع کرم کے لیے زمینی راستے کھولنے اور قافلوں کی صورت میں گاڑیوں کی آمدورفت شروع کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبرمیں ضلع کرم میں گاڑیوں پر فائرنگ، مسافروں کی ہلاکت شروع ہوئی ،نومبر میں اسی نوعیت کے دوسرے واقعہ کے بعد سے ضلع کرم کا زمینی رابطہ صوبے اور ملک بھر سے کٹ گیا تھا اور کرم کی آبادی محصورتھی۔ اس دوران کرم میں شرپسند عناصر سرگرم رہے ، قتل وغارت کا سلسلہ شروع رہا اور صورتحال خاصی سنگین ہوگئی۔

حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خیبرپختونخوا کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کی جس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور عسکری حکام نے شرکت کی اور کرم میں قیام امن کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ اس اجلاس کے تسلسل میں ضلع کرم کے دونوں فریقین کے مشران پر مشتمل جرگہ قائم کیاگیا ۔ اس جرگے یا پنچایت نے تین ہفتے کام کیا اوریکم جنوری بروز بدھ ، اس پنچایت کے ارکان نے امن معاہدہ پر دستخط کردیے۔ یوں نئے سال کا پہلا دن ایک اچھے کام سے شروع ہوا ہے ۔

14 نکاتی امن معاہدہ کوتجدیدمری معاہدہ اور بشمول سابقہ معاہدات برائے مستقل قیام امن ضلع کرم سے جوڑا گیا ہے۔ امن معاہدہ کے مطابق مری معاہدہ 2008 اور سابقہ تمام علاقائی و اجتماعی معاہدے، کاغذات مال ، فیصلے اور قبائلی روایات اپنی جگہ برقرار رہیںگے جن پر ضلع کرم کے تمام مشران متفق ہیں ۔ حکومت سرکاری روڈ پر ہر قسم کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لے گی،روڈ پر کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں علاقے کے لوگ رواج اور قانون کے مطابق اپنی بے گناہی ثابت کریںگے۔ اگر کسی نے شرپسندوں کو پناہ دی یا قیام و طعام میں معاونت کی تو ان کو رواج اور قانون کے مطابق مجرم تصور کیا جائے گا۔

معاہدہ مری کے مطابق ضلع کرم کے تمام بے دخل خاندانوں کو اپنے اپنے علاقے میں آباد کیا جائے گا اور اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ ضلع کرم میں توجہ طلب زمینی تنازعات کو رواج، فیصلہ جات، مسئلہ جات اور قبائلی روایات کے مطابق حل کریںگے، رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔ متنازعہ علاقوں پر سیکشن 144پہلے سے نافذ شدہ ہے جس پر فریقین کی جانب سے فوری طور پر عملدرآمد کرایا جائے گا۔

اسلحہ کی آزادانہ نمائش و استعمال پر مکمل پابندی اور اسلحہ خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، اسلحہ واپس کرنے کے لیے قبائل سے مشاورت کے بعد دو ہفتوں میں لائحہ عمل دیںگے ،اس اقرار نامہ کے بعد فریقین ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ، ہتھیار کا استعمال نہیں کریں گے، بصورت خلاف ورزی حکومت ، امن کمیٹی کے تعاون سے ان گاؤں /علاقے کے خلاف قانونی کارروائی کرے گی اور انھی گاؤں سے حکومت/ سیکیورٹی ادارے اسلحہ اپنے قبضے میں لے گی اور متعلقہ گاؤں گرینڈ امن جرگہ کو رواج کے مطابق ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کے پابند ہوںگے۔

کوئی بھی شخص یا اشخاص اپنے مابین لڑائی کو ہر گز مذہبی رنگ نہیں دیںگے، علاقے میں فرقہ ورانہ نفرت کی بنیاد پر قائم کالعدم تنظیموں کے کام کرنے اور دفاتر کھولنے پر پابندی ہو گی اور خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی ہو گی،آمدو رفت کے تمام راستوں ،سڑکوں پر کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی ۔ تمام سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کرام بلاروک ٹوک و خوف و خطرضلع کرم کے تمام علاقوں میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیںگے۔ سوشل میڈیا پر فریقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر شرپسند عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی اور ان کے دوست و احباب جو تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان شرپسند عناصر کی تائید کرتے ہیں، وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک تصور کیے جائیںگے۔

کسی بھی علاقے میں اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو متعلقہ علاقے میں امن کمیٹیاں فوراً متحرک ہوںگی، ویلج امن کمیٹی کے ممبران متعلقہ SHOعلاقہ تحصیلدار اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ حالات کو کنٹرول کرنے میں بھر پور تعاون کریں گے۔ کرم امن کمیٹی کے منتخب شدہ ممبران فوری طور پر صدہ اور پارا چنار ضلعی انتظامیہ کے دفاتر سے رجوع کریںگے اور پولیس انتظامیہ سے تعاون کریں گے اور مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے کو یقینی بنائیںگے۔اگر دو گاؤں کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا تو کسی اور گاؤں کے لوگ مداخلت نہیں کریںگے، ہمسایہ گاؤں کی امن کمیٹیاں فریقین کے درمیان تصفیہ کرنے کی کوشش کریںگی اور اگر تصفیہ ویلج امن کمیٹیوں کی دسترس سے باہر ہو تو ویلج امن کمیٹی برائے تصفیہ کرم امن کمیٹی سے رجوع کرے گی اور حکومتی ادارے بھی تصفیہ میں مدد فراہم کریںگے۔

ضلعی پولیس /ریاستی ادارے کرم میں امن و امان کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے یا تخریب کاری میں ملوث افراد کی جلد از جلد گرفتاری عمل میں لائیں گے اور اس علاقے کے منسلک یا قبیلے کے مشران انفرادی یا اجتماعی طور پر ان کی گرفتاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے ، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے دہشت گرد تصور کیے جائیںگے۔فریقین کے ہر قسم کے بینکرز کی تعمیر پر پابندی ہوگی اور علاقے میں پہلے سے موجود تمام بینکرز کو ایک مہینے کے اندر ختم کیاجائے گا، مورچوں کی مسماری کے بعد جو بھی فریق لشکر کشی کرے گا حکومت ان افراد کے خلاف فوری طور پر ہر طرح کا ایکشن لے گی اور متاثرہ فریق کو مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔

اگر کرم امن کمیٹی کے ممبران بشمول سابقہ اور موجودہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی /سینیٹ ممبران فریقین نتیجہ پر نہیں پہنچ پاتے تو گرینڈ جرگہ کے اکثریتی ممبران اس مسئلہ سے متعلقہ جو فیصلہ دیں گے فریقین کو قابل قبول ہو گا اوررواج کے ساتھ قانونی کارروائی بھی کی جائے گی۔ فریقین کے درمیان فائر بندی دائمی ہو گی ۔ سابقہ خلاف ورزیوں کا تعین نہیں کریںگے ، خلاف ورزی پر رواج اور قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ جرگہ ارکان نے واضح کیا کہ ہم کرم امن کمیٹی ممبران سفارش کرتے ہیں کہ مرتب شدہ تجاویز بہ تسلسل مری معاہدہ اور دیگر سابقہ معاہدہ میں مستقل اور پائیدار امن کے قیام میں رخنہ ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

 وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ضلع کرم کے مسئلے کے پر امن حل کے لیے صوبائی حکومت کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں جو کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے جس کا خیر مقدم کرتا ہوں، یہ معاہدہ کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔

کرم کا زمینی راستہ کھلنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، فریقین نے معاہدے پر دستخط کرکے علاقے میں امن کے لیے مثبت کردار ادا کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ معاہدہ فریقین کے درمیان نفرت پھیلانے والے عناصر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ علاقے کے لوگ امن پسند ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ منافرت پھیلانے والے عناصر کومسترد کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، لڑائی اور تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، مسائل اور تنازعات ہمیشہ مذاکرات سے ہی حل ہوتے ہیں۔ کرم کے عوام کو درپیش مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے، انھیں دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

ضلع کرم میں امن معاہدہ ہونا، ایک اچھی شروع کہی جاسکتی ہے تاہم اس سارے معاملے میں بہت سے اگرمگر اور چونکہ چنانچہ موجود ہیں، جن پر سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن فی الحال سب سے اہم پہلو اور پیش رفت یہ ہے کہ بقول خیبرپختونخوا حکومت کے اس امن معاہدے سے علاقے میں امن اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا اور معمولات زندگی جلد مکمل طور پر بحال ہو جائیں گے، اﷲ کرے کہ یہ معاہدہ کامیاب رہے اور اس علاقے میں حتمی امن قائم ہوجائے۔

کیونکہ امن کرم ہی نہیں ، پورے خیبرپختونخوا اور پاکستان کی ضرورت ہے۔پاکستان کے کسی صوبے کا کوئی ضلع تو دور کی بات کسی گاؤں کے پرامن شہریوں کو مسلح جھتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔پاکستان کی حدود میں رہنے والے تمام شہریوں کی جان ومال کاتحفظ کرنا،شہریوں کے کاروباری معمولات کو جاری رکھنا اور انفراسٹرکچر کی حفاظت کرنا وفاقی، صوبائی حکومتوں کا فرض ہے۔قانون شکن گروہوں، ان کے سہولت کاروں اور فنانسرز کا سرکچلنا حکومت کا فرض ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں