7

فی کس آمدن غربت اور ’’اڑان پاکستان‘‘

1990 کی دہائی میں غربت جوکہ پہلے سے ہی انتہائی سنگین ترین مسئلہ تھا۔ اس کی پیمائش کی خاطر ’’بین الاقوامی غربت کی لائن‘‘ کا تصور پیش کیا گیا۔ عالمی سطح پر ایک پیمانہ یہ مان لیا گیا کہ ڈالر کی 1985 والی سطح کی بنیاد پر 370 ڈالر مقرر کی گئی، لہٰذا ان دنوں غربت کی کلی سطح کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ 1989 تک دنیا کی سوا ارب آبادی جوکہ ان دنوں کل آبادی کا 23 فی صد تھی کلی غربت میں رہ رہے تھے۔

اب ہم پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو 1990 سے نئی صدی کے آغاز تک جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں ملینیم کے مقاصد کیے گئے اور کہا گیا کہ 2015 تک دنیا کی غربت میں 50 فی صد کمی لے کر آئیں گے اس کے ساتھ ہی غربت کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ تمام امیر ممالک نے اپنے اپنے جھنڈے اٹھائے اور میدان عمل میں نکل آئے کہ غربت کو اب مٹا کر دم لیں گے۔

چنانچہ تمام صنعتی ممالک کے وفود کے سربراہ زیادہ تر سربراہ مملکت صدر یا وزیر اعظم نے سب نے دھواں دھار تقاریر کیں، غربت کو اپنا ذاتی اور ملکی اور قومی ہدف بنا ڈالا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ اس دوران نائن الیون ہو گیا اور تمام صنعتی ممالک اسلام فوبیا پر متفق ہو گئے۔ عراق میں جوہری بم تلاش کرنے کے بہانے افغانستان و عراق کو کھنڈر بنا ڈالا گیا۔ لیبیا کی درگت بنا ڈالی، ایران پر پابندیاں اور پاکستان پر آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط اور اب 2025 کے آغاز کے ساتھ نئے امریکی صدر زمام اقتدار سنبھالیں گے، لیکن جنگ زدہ ماحول میں دنیا میں غربت کم نہ ہوئی نہ ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی۔

 2025کے آغاز سے ہی پاکستان نے اپنے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔ 1970 اور 1990 اور اب حالات میں بہت فرق ہے ۔ 2025 میں ہم نے 5 سالہ قومی اقتصادی منصوبے ’’اڑان پاکستان‘‘ کا افتتاح کر دیا۔ 1970 تک پاکستان کو غربت کے سنگین مسئلے سے دوچار معاشی ماڈلز کی نقل کی۔

دنیا حیران تھی کہ ہماری ترقی کی شرح سنگل ڈیجٹ سے نکل کر ڈبل ڈیجٹ کی طرف جانے والی ہے۔ آج سرمایہ کار، صنعتکار اسٹاک ایکسچینج میں جا کر بیٹھ گئے اور یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ نہ کارخانہ چلانے کی جھنجھٹ، نہ مزدوروں کے ساتھ چخ چخ، آرام سے شیئرز خریدو اور بیچو، نفع کماؤ اور پتلی گلی سے نکل جاؤ۔ 1950 سے 1970 تک پاکستان نے کیا دیکھا۔ فیکٹریاں کھل رہی تھیں، گیٹ پر بورڈ آویزاں ہوتے تھے ’’ضرورت ہے ہنرمندوں کی، کلرکوں کی، اکاؤنٹینٹ کا کام کرنے والوں کی، سپروائزرز کی۔‘‘ لوگوں کی آمدن بڑھنے لگی اور پاکستان میں دنیا بھر کے مقابلے میں غربت کی شرح تیزی سے کم سے کم ہونے لگی۔

1990 کی دہائی سے قبل ہی ایک بات پر زور دیا جانے لگا ملکوں کے مابین غربت اور امارت کی شرح کو اس طرح ماپا جاتا کہ اس ملک کی فی کس آمدن کتنی ہے۔ یہ بات امیر ممالک کے لیے درست ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ فی کس آمدنی کا مطلب ہے کہ ایک شخص کی آمدن۔ پاکستان کی فی کس آمدن یعنی ایک شخص کی آمدن جیسا کہ پاکستان میں ایک شخص کی آمدن کا 2024 کا تخمینہ 1588 ڈالر لگایا گیا تھا اور اس پر خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے کہ فی کس آمدن میں اتنے فی صد اضافہ ہو گیا۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ اضافہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ ہر ایک شخص کی ماہانہ آمدن 37 ہزار روپے ہے۔

بات یہ درست نہیں ہے ان نظریات کو پیش کرتے وقت عالمی استعماری قوتوں نے اس بات کے فرق کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا کہ غریب ممالک اکثر کثیر آبادی والے ہوتے ہیں وہاں کا 10 سے 20 فی صد ہی طبقہ امیر ہوتا ہے اور وہاں پر وسائل کی تقسیم پر امیر طبقہ مامور ہوتا ہے۔ اڑان پاکستان منصوبے کے مقاصد یہ ہونے چاہئیں کہ کسی طرح آبادی کی اکثریت کی آمدن فی کس آمدن کے مطابق ہو۔ بہرحال فی کس آمدن کے اعتبار سے ہر شخص کی ماہانہ آمدن 37 ہزار روپے ہونی چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

غریب کی جیب میں پیسہ نہیں، دھیلا نہیں۔ صرف دو باتیں عرض کروں گا۔ 1990 کی پوری دہائی تک پورے پاکستان میں گھریلو صنعتیں کام کر رہی تھیں۔ نائن الیون سے پہلے بیرون ملک سے تاجر آتے تھے ان کارخانوں کا مال سمیٹتے تھے ۔ نائن الیون کے بعدبیرونی تاجروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ اب دوسری طرف آتے ہیں ملک کی دیہی ترقی کا دارو مدار ان کی زرعی پیداوار پر ہے۔ گنے کی پیداوار کا اصل اور زیادہ سے زیادہ منافع مل مالک لے جاتا ہے۔

چاول کی لاگت کاشتکار کو نہیں ملتی اور ایکسپورٹر سارا منافع کما لیتا ہے۔ گندم کی قیمت نہیں ملتی منڈی کا آڑھتی منافع حاصل کر لیتا ہے، اصل منافع زیادہ سے زیادہ تاجر، سرمایہ کار، آڑھتی لے کر چلے جاتے ہیں۔ حکومت اپنے اقتصادی پلاننگ میں اس طرف توجہ دے کہ کس طرح سے آمدن پیداوار کرنے والے اصل مالکان کو ملے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں