6

فکر اسلامی کی تشکیل نو

ظفر اللہ خان کیا ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہمیں درست جواب سے دور لے جائے جیسے یہ سوال اگر کسی صحافی سے کیا جائے تو اس کا خیال ہو گا کہ یار ٹیڑھا آدمی ہے۔ کچھ لکھ بیٹھو تو جان کو آ جاتا ہے۔

یوں معلوم ہو گا کہ یہ شخص اصل میں تو بیوروکریسی کا کل پرزہ تھا، بیوروکریسی میں بھی ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ، گویا اس قبیلے کی اسٹیبلشمنٹ۔ نام کے ساتھ بیرسٹر لکھا دکھائی دے تو صاف معلوم ہو گا کہ یہ صاحب قانون دان ہیں لیکن قانون دانی ان کی واحد شناخت تو نہیں۔ ٹیلی ویژن پر وہ ہمیں سیاست پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

انھیں بعض دانشوروں کی طرح غیر جانبداری کا عارضہ لاحق نہیں۔ وہ واضح سیاسی نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کے حق میں وہ صرف آواز ہی بلند نہیں کرتے بلکہ اجتماعیت میں شرکت بھی ضروری سمجھتے ہیں، گویا سیاست دان بھی ہیں۔ تعارف کے تین پہلو تو سامنے آ گئے لیکن بات یہاں ختم ہوتی نہیں۔

ویسے تو راؤ فضل الرحمان کو ملاقات سے پرہیز ہے لیکن خوش قسمتی سے کبھی وہ دستیاب ہو ہی جائیں تو بتائیں گے کہ اصل میں تو وہ استاد ہیں اور وہ بھی دستوریات کے۔ فضل کو ان کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دستور کو پڑھاتے ہوئے قرارداد مقاصد کی تفہیم جس خوبی اور وضاحت سے کرتے ہیں یہ ان ہی کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود یہ دستاویز کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو ظاہر ہے کہ اس کا ایک ایمان دارانہ سبب تو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔

دوسری وجہ جو سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے یہاں عشروں تک جو نظریاتی آویزش رہی ہے، اس کی وجہ سے بہت سے اہم معاملات کی تفہیم میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ خان صاحب کی اس شناخت کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ان کا تعارف ختم نہیں ہوتا، جدید تعلیم کے بہت سے ہفت خواں اگرچہ انھوں نے طے کر رکھے ہیں لیکن وہ فی الاصل علوم دینیہ کے طالب علم ہیں اور ان علوم کا اصل اور کلاسیکی نصاب یعنی درس نظامی بھی اعزاز کے ساتھ پڑھ رہا ہے۔

اس کے علاوہ وہ سیاح بھی ہیں اور خواب بھی دیکھتے ہیں اور خواب بھی ایسے جو کسی اور زمانے کے ہوں۔ اتنی بہت سی خوبیوں اور شناختوں نے بیرسٹر صاحب کو منفرد شخصیت تو بنا ہی دیا ہے لیکن اس تنوع نے انھیں تصویر کے دوسرے نہیں تیسرے اور چوتھے پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کر دی ہے۔ یہ بات معمولی نہیں ہے کہ سینیٹر عرفان صدیقی جیسے استاد نہ صرف یہ تسلیم کریں بلکہ اعلان بھی کریں کہ بیرسٹر صاحب کا ٹیلنٹ ضایع ہو رہا ہے۔

بیرسٹر صاحب کے علم و فضل سے کوئی استفادہ کرتا ہے یا نہیں، وہ اپنے کام سے لگے رہتے ہیں جیسے حال ہی میں ان کی ایک کتاب شایع ہوئی ہے، ‘ اجتہاد’ ۔ یہ کتاب کیا ہے، افکار کا عجائب خانہ ہے۔ عالمی تہذیب اور علوم و فنون آج جس مقام پر جا پہنچے ہیں، علم کی اس معراج میں مسلمانوں کا حصہ کیا ہے اور کتنا ہے؟ مرعوبین مغرب کی طرح ان کے ساتھ ایسا حادثہ تو نہیں ہوا کہ آرائشی علم کی چکا چوند میں ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہوں لیکن پدرم سلطان بود والی کیفیت بھی ان میں نہیں ہے۔

فلسفہ، سائنس، طب، قانون، تاریخ اور سماجیات سمیت انھوں نے درجن بھر ابواب میں یہ بتا دیا ہے کہ یہ علوم آج کس بلندی پر جا پہنچے ہیں، اس شان دار علمی سفر میں کون کون سے پڑا ؤآئے نیز اس سربلندی میں مسلمان علما کی کدو کاوش کیا ہے۔ اس طرح کی بات ویسے اور لوگ بھی کر دیتے ہیں لیکن بیرسٹر صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے تاریخی شواہد کے ساتھ یہ بھی بتا دیا ہے کہ علم کی عصری صورت حال میں ہم اتنے پیچھے کیوں رہ گئے ہیں اور اس پسپائی کے نتائج کیا برآمد ہوئے ہیں۔

کتاب کا دوسرا حصہ اسی موضوع پر ہے ۔ اس لیے زیادہ اہم اور دلچسپ ہے۔ مسلم معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ان میں بے شمار عوامل بروئے کار آتے ہیں، ان میں مذہب اور دینی طبقات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان ہو، دیگر مسلم معاشرے ہوں یا دنیا کے مختلف معاشروں میں بسنے والی مسلمان اقلتیں، کتاب کے دوسرے حصے میںانھوں نے ان امور کو مختلف ابواب میں بالکل پہلے حصے کی طرح ہی حصوں میں بانٹ کر جائزہ لیا ہے۔

دوسرے حصے کا پہلا حصہ قابل توجہ ہے۔ ان کے مخاطب چوں کہ مسلمان ہیں اس لیے انھوں نے بڑی تفصیل سے یہ بتانا مناسب سمجھا ہے کہ زندگی کے مختلف معاملات میں اسلام یعنی قرآن و سنت کی حقیقی منشا کیا ہے۔ یہ سوال اہم ہو سکتا ہے کہ اسلام کی حقیقی منشا پر کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پندرہ صدیوں کے سفر اور اس دوران میں رونما ہونے والے سیاسی، تہذیبی، تاریخی اور سائنسی ارتقا کے اثرات کے مسلم سماج نے کس طرح قبول کیے اور ان معاشروں میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے ان ابواب میں تفصیل کے ساتھ ان تبدیلیوں کا بہ کمال و تمام جائزہ لیا ہے۔

بیرسٹر صاحب نے مسلم سماج میں عوارض کی شناخت کی ہے؟یہ تذکرہ طویل ہے، اسے چند سطور یا ایک دو پیروں میں بیان کرنا نہ صرف یہ کہ آسان نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ سنجیدہ علمی کتابوں میں زیر بحث آنے والے مباحث کا اخباری کالموں میں زیر بحث لانے سے پیچیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے کیوں کہ اتنی بڑی بحث کو چند سطور میں سمیٹنا مشکل ہے ۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس جائزے کے ذریعے مصنف جن نتائج تک پہنچے ہیں، ان سے استفادہ کر لیا جائے۔

اسلامی فقہ کی تشکیل جدید کے مطالبے کی جڑیں مسلم تہذیب کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس کا علاج تجویز کرنے والے عبقری علامہ محمد اقبالؒ تک پہنچتی ہیں۔ اقبالؒ نے اپنے خطبات میں تفصیل کے ساتھ یہ بحث کی ہے لیکن کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد حالات میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوچکی تھیں لہٰذا یہ ضروری ہو گیا تھا کہ مسلم سماج کے مسائل کو ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ بیرسٹر صاحب اس جائزے کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صدیوں کے الٹ پھیر اور حادثات کے نتیجے میں اسلامی فکر کا توازن متاثر ہو گیا ہے۔ یہ توازن اسلامی فکر کی تشکیل جدید کے نتیجے میں ہی بحال ہو سکتا ہے۔ اجتہاد اسی لیے کیا جاتا ہے جس کی بنیادیں قرآن و سنت فراہم کرتے ہیں۔

اجتہاد کے امور زیر بحث آئیں تو اس کے ساتھ کچھ تحفظات چلے آتے ہیں۔ مصنف نے اس ضمن میں قرآن و سنت کی روشنی میں ہی بتایا ہے کہ اجتہاد کے نتیجے میں کوئی نیا مذہب وجود میں نہیں آ جاتا بلکہ اس توازن کو بحال کر دیتا ہے جو اسلام کی منشا ہے۔ منصف اس عمل کو شاعرانہ زبان میں کسی اور زمانے کا خواب قرار دیتے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہے؟ بیرسٹر صاحب نے اس کے راستے بھی تجویز کر دیے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں