بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بلاشبہہ ہمارے ایک ایسے قومی راہ نما ہیں جنہوں نے نہ صرف ہم کو وطن عزیز پاکستان جیسی ریاست کا مالک بنایا بلکہ انہوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بھی اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی اپنی قوم کی ایسے خطوط پر رہنمائی کی جن کی روشنی میں وہ ترقی، خوشحالی اور کامرانی کی منزلوں کو طے کرتے رہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ہم نے قائداعظم کے متعین کردہ اُصولوں پر سنجیدگی سے کبھی عمل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی بنا پر ہم قائداعظم کے تصوّرِپاکستان سے دُور ہوتے چلے گئے اور اَب جب کہ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک بدترین سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی انتشار اور بحران میں مبتلا ہے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم قائداعظم کے افکار کی روشنی میں اپنے حال کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ قائداعظم بحیثیت قوم ہم کو اور بحیثیت ریاست پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے اور ہم نے خود کو اور پاکستان کو کیسا بنا دیا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے لیکن مایوس کن نہیں ہے کیوں کہ قائداعظم کی تقاریر اور بیانات ہمارے سامنے موجود ہیں، جن سے راہ نمائی حاصل کرکے ہم آج بھی قائداعظم کے تصوّرِ پاکستان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ بقولِ شاعر:
ہم خاک ہوچکے ہیں مگر اُس کی یاد سے
آتا ہے اپنے ہونے کا کچھ اعتبار سا
قائداعظم کے تصوّرپاکستان کے حوالے سے غوروفکر اس بات کی دلیل ہے کہ ہم مایوس ضرور ہیں، مگر بے حس نہیں ہیں۔ ہم حبس دم کا شکار ہیں اور کسی آکسیجن ٹینٹ کی تلاش میں ہیں۔ قائداعظم کے تصوّرِپاکستان تک ہم رسائی تو حاصل نہیں کرسکے مگر قائداعظم کے تصوّرِپاکستان کا خیال ابھی ہمارے دل و دماغ میں زندہ ہے۔
گویا اپنی حالتِ زار کا احساس ہونے کی بنا پر ہم کسی فلاح کی تلاش میں ہیں۔ یہی تلاش ہم کو غوروفکر پر آمادہ رکھے ہوئے ہے اور اگر ہم نے اس غوروفکر کے عمل کو جاری رکھا تو یقیناً ہم ایک دن تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے قائداعظم کے پاکستان تک رسائی حاصل کرلیں گے۔
مگر اس کے لیے ہمیں خود کو قائداعظم کی فکر سے وابستہ کرنا ہوگا تاکہ ہم پر وہ اُصول واضح ہوسکیں جن کی راہ نمائی میں ہم نے ایک زبردست جدوجہد کے بعد برِّصغیر کی دو بڑی طاقتوں سے پاکستان کے قیام کے مطالبے کو تسلیم کروالیا تھا۔
لمحۂ موجود میں قائداعظم کے تصوّرپاکستان تک رسائی کا واحد ذریعہ قائداعظم کی تقاریر، بیانات اور خطوط ہیں۔ جب تک ہم ان تقاریر، بیانات اور خطوط کا مطالعہ نہیں کریں گے اور جب تک اپنے اندر ان کا فہم پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ قائداعظم کا تصوّرِپاکستان کیا تھا۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے اس سوال پر بہت غور کیا ہے تاکہ میں اس سوال کے جواب تک رسائی حاصل کرسکوں۔
میں بلاکسی پس و پیش یہ بات کہہ رہا ہوں کہ میری اس سوال کے جواب تک رسائی ممکن ہوگئی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایک ایسا طبقہ جو خود بھی قائداعظم کے بارے میں تصنیف و تالیف میں مشغول ہے، انہی بیانات سے ایسے مطالب برآمد کرلیتا ہے جو مجھ ایسے طالب علموں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتے ہیں۔
تحریکِ پاکستان کے دوران بھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی متعدد مواقع پر قائداعظم نے یہ فرمایا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہوگا اور ہم پاکستان کو حقیقی معنی میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے (13 جون 1948) یہی نہیں آپ نے مطالبۂ پاکستان کو مسلمانوں کی ملی اور فکری بیداری کی تحریک قرار دیا اور 2 مارچ 1941 کو لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا،’’مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے‘‘ قائداعظم کا یہ احساسِ فخر دراصل ’’ان کے تاریخی شعور، مذہبی روایات اور احساسِ وراثت کی روشن دلیل ہے جس کا قائداعظم اپنی تقاریر میں بار بار اظہار کیا کرتے تھے۔
30 ستمبر 1943 کو ایک پیغام میں آپ نے فرمایا، ’’ہم ایک عظیم الشان تاریخ اور درخشاں ماضی کے وارث ہیں۔ ہمیں خود کو اسلام کی حقیقی نشاۃ الثانیہ کے لیے وقف کردینا چاہیے۔‘‘ 30 اکتوبر 1947 کو لاہور سے ایک نشری تقریر میں عوام سے انہوں نے فرمایا،’’ہم موجودہ حالات سے دل شکستہ نہیں ہیں۔
اسلام کی تاریخ جواںمردی اور عزم و حوصلہ کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب و تاریخ ہے، اُسے کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ایک مرحلہ پر آپ نے فرمایا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے آئین کی حتمی صورت کیا ہوگی۔ البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے تمام ضروری اور بنیادی اُصولوں پر مبنی ہوگا۔‘‘
19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشری خطاب میں فرمایا، ’’پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہؐ کی تعلیمات پر عمل پیراہیں۔
ہم اُس اسلامی ملت اور برادری کے رکن ہیں جس میں حق، وقار اور خودداری کے حوالے سے سب برابر ہیں۔ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے۔ پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو گوارا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
قائداعظم کی تقاریر سے یہ اقتباسات درج کرنے کی مجھے ضرورت اس لیے پڑی کہ جہاں حق روشن ہوجائے وہاں قائداعظم کی اُس فکر تک بھی رسائی ممکن ہوسکے جو اپنے وسیع تر معنی میں اسلامی ہے۔
یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ 13 اگست 1947 کو کراچی میں انتقال اقتدار کی تقریب میں جب ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان میں آباد اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مغل شہنشاہ اکبراعظم کی مثال دی تو قائداعظم نے اپنی جوابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ اکبراعظم نے تمام غیرمسلموں کے ساتھ جس رواداری اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہ تھی۔
اس کی ابتدا آج سے تیرہ سوسال پہلے ہمارے پیغمبر حضرت محمدمصطفی ﷺ نے کردی تھی۔ آپ ﷺ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی یہودونصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ اُن کے ساتھ رواداری برتی اور اُس کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکم راں رہے ایسے ہی رہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اُصولوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان اُصولوں کی ہم سب کو تقلید کرنا چاہیے۔‘‘
ان حقائق کے باوجود گذشتہ چند برس سے یہ بات بھی کچھ زبانوں پر موجود ہے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کی ثقافت اور رہن سہن ایک تھا پھر ہندوستان کو کیوں تقسیم کردیا گیا۔ یہ بات پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایک خطرناک سازش ہے جو امن کے پیغام کی صورت میں پھیلائی جارہی ہے اور تحریک پاکستان کی تاریخ سے ناواقف افراد کے اذہان کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔
میں اس مرحلے پر ایک مرتبہ پھر قائداعظم کے ایک خط کا اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا جو انہوں نے 17 ستمبر 1944 کو ہندو مہاتما موہن داس کرم چند گاندھی کو تحریر کیا تھا۔ قائداعظم نے گاندھی جی کو لکھا،’’ہندو اور مسلمان قومیت کے ہر معیار کی رُو سے دو الگ الگ قومیں ہیں۔ مسلمان دس کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم ہیں۔
ہم اپنے ایک مخصوص و منفرد کلچر کے مالک ہیں۔ ہم ایک خاص تمدن کے وارث ہیں۔ ہماری زبان، ہمارا ادب، ہمارا فنِ تعمیر، نام اور نظام اسمائ، شعورِ اقتدار و تناسب، قوانین، اخلاقی ضوابط، رسوم و رواج، تقویم، تاریخ، روایات، مزاجوں کی ساخت و صلاحیت، آرزوؤں اور اُمنگوں کی نوعیت، غرض کہ زندگی کے بارے میں اور زندگی میں ہمارا اپنا ایک خاص نکتۂ نظر ہے اور بین الاقوامی قانون کی ہر تعبیر کے مطابق ہم ایک مستقل قوم ہیں۔‘‘
قائداعظم کی اسی تشریح اور تصوّر سے جہاں دو قومی نظریے کو تقویت پہنچی وہاں مسلمانوں کو ایک علیحدہ مسلم وطن کے قیام کے لیے منہاج میسّر آئی۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضرور ہے کہ دو قومی نظریہ مذہب کا نمائندہ تھا اور جو نظریہ مذہب کا نمائندہ ہو اُس سے حاصل ہونے والا ملک کیوں کر غیرمذہبی ہوسکتا ہے۔ 25 جنوری 1948 کو قائداعظم نے کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب عیدمیلادالنبیؐ سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں فرمایا تھا،’’لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔
میں باور کرانا چاہتا ہوں کہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اُسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔‘‘ اسی تقریر میں آپ نے یہ بھی فرمایا، ’’رسول اللہؐ ایک عظیم راہبر تھے۔ ایک عظیم قانون داں تھے۔
ایک عظیم مدبر تھے۔ ایک عظیم فرماںروا تھے جنہوں نے حکم رانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ رسول اللہؐ عظیم ترین انسان تھے۔ آپؐ سے قبل چشم عالم نے کبھی اس قدر عظیم ترین انسان کا نظارہ نہیں کیا۔ تیرہ سوسال قبل آپؐ نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی۔‘‘
قائداعظم کے تصوّرِپاکستان کے حوالے سے قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر جو انہوں نے قیام پاکستان سے قبل کراچی میں دستور ساز اسمبلی کے افتتاح کے موقع پر کی تھی بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہے بلکہ میں اسے پاکستان کے دستور کا بنیادی خاکہ تصوّر کرتا ہوں۔ اس تقریر کے اقتباسات درج کرنے کے بجائے میں یہاں جزوی طور پر اس تقریر کے نکات کو اختصار کے ساتھ درج کررہا ہوں تاکہ اس تقریر کے حوالے سے جو ابہام اور شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں اُن کا ازالہ بھی ہوسکے۔
1۔ پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا۔
2۔ وفاقی قانون ساز ادارے کو کامل خودمختار ادارے کی شکل دینا۔
3۔ امن و امان کو برقرار رکھنا تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور اُن کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔
4۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ (اسے قائداعظم نے ایک زہر قرار دیا اور کہا کہ اس کا سختی سے قلع قمع کرنا پڑے گا)۔
5۔ غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت کی چوربازاری اور گرانی کا خاتمہ۔
6۔ اقربا پروری اور احباب نوازی کی لعنت کا خاتمہ۔
7۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کو یقینی بنانا۔
8۔ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کا آزادانہ حق۔
9۔ پاکستان کو خوش حال بنانے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ (عوام سے قائداعظم کی مراد عامۃ الناس اور غریب عوام تھے)۔
10۔ذات پات کے نظام اور صوبائی عصبیتوں کا خاتمہ۔
قائداعظم نے ان نکات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا،’’اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ ہیں۔‘‘ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو۔ کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ قائداعظم نے آخر میں یہ بھی کہا کہ ’’جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا اور نہ مسلمان مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘
درجِ بالا یہی دو پیراگراف ہیں جن کی بنیاد پر کچھ لوگ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ تصوّر کرنے کے حق میں ہیں، لیکن وہ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ یہ دونوں پیراگراف تقریباً انہی معنی میں چودہ سو سال پیشتر تحریر کیے جانے والے ’میثاقِ مدینہ‘ میں بھی موجود ہیں۔ یہ پیراگراف اقلیتوں کے حقوق و معاملات کی نشان دہی کرتے ہیں۔
یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ تحقیق قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق اور تاریخ داں پروفیسر شریف المجاہد کی ہے اور گذشتہ بیس سال کے دوران کسی بھی جانب سے اسے رد نہیں کیا گیا۔ میں قائداعظم کے ’تصوّرِ پاکستان‘ کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں سنا رہا ہوں۔ میں نے تو صرف شواہد پیش کیے ہیں جو اپنے بطون میں خود وضاحتی ہیں۔
بعض طبقات قائداعظم کے خیالات کو اپنے نظریات کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ یہ رویّہ درست نہیں ہے۔
قائداعظم کے خیالات کو معروضی انداز میں دیکھنا چاہیے۔ اسی صورت میں ہی ہم قائداعظم کے تصوّرِ پاکستان کو مؤثر طور پر پیش کرسکتے ہیں اور اسی طرح ہم پاکستان کی حقیقی خدمت کرسکتے ہیں۔ میرے خیال میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کی نظریاتی اساس باہم لازم و ملزوم ہیں۔ قائداعظم کی فکر کو متنازعہ بنانے کا نتیجہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔