[ad_1]
ہمارا معاشرہ طبقاتی فرق میں واضح طور پر بٹا ہوا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ہر طرح سے مراعات یافتہ، حاکمانہ اور خوشحال زندگی بسر کررہا ہے جب کہ دوسرا طبقہ مظلوم اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا ہے۔ اور یہ دوسری قسم کا طبقہ بھی مزید طبقات میں بٹا ہوا ہے جس میں اگر پرکھا جائے تو سب سے نچلے درجے پر خواجہ سرا کمیونٹی نظر آتی ہے۔
خواجہ سرا یا ہیجڑے، جنھیں معاشرے میں مختلف تحقیر آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے ایک طویل عرصے سے معاشرے میں اپنی شناخت حاصل کرنے اور برابر کے انسانی حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔
تیسری جنس کے ان نمائندوں کو معاشرے میں ہمیشہ ہی تحقیر کا سامنا کرنا پڑا اور یہ مظلوم طبقہ ہر جگہ سے دھتکارا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی شناخت اور حقوق کے حصول کے لیے یہ طبقہ اپنی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹا۔ شناخت کے اس سفر میں جہاں کٹھنائیاں جھیلنی پڑیں وہیں طرح طرح کی دشنام طرازی کا سامنا بھی تھا۔ لیکن اس کمیونٹی کے کچھ سرکردہ چہرے بار بار معاشرے کو احساس دلانے کے لیے سامنے آتے رہے کہ وہ بھی سب کی طرح انسان اور اس معاشرے کا اہم حصہ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے کام کرنے والوں کو طرح طرح کی باتیں اور طعنے بھی سننے کو ملتے رہے۔ یہاں تک کہ جو قانونی بل پاس کروائے گئے ان پر بھی اغیار کی سازش اور اسلامی اقدار کے منافی قرار دے کر روڑے اٹکانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن پھر بھی یہ کمیونٹی پیچھے نہیں ہٹی اور اپنے آہنی عزم کے ساتھ معاشرے کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ سال کراچی میں خواجہ سرا کمیونٹی نے ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا تھا تاکہ ان کی موثر آواز معاشرے میں ابھر کر سامنے آسکے۔ اور اس سال بھی رواں ماہ کی 9 تاریخ کو کراچی میں دوسرے ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔
اس سال کا ہیجڑا فیسٹیول کراچی میں 9 نومبر بروز ہفتہ منعقد کیا جارہا ہے۔ جس میں قائد اعظم ہاؤس سے فیریئر ہال تک مارچ کیا جائے گا۔ فیسٹیول کے اوقات دن کے دو بجے سے شام سات بجے تک ہیں، جس میں ریلی نکالنے کے علاوہ مختلف پروگرام شامل ہیں۔
فیسٹیول کی آرگنائزر خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی این جی او ’’سب رنگ سوسائٹی‘‘ کی روح رواں اور پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ماڈل کامی چوہدری ہیں۔ کامی چوہدری نے ہیجڑا فیسٹیول کے انعقاد اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ہیجڑا فیسٹیول کے مقاصد میں سے پہلے اپنی شناخت کی پہچان اور خود کو معاشرے میں قبول کروانا ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ کمیونٹی کو طاقت ور بناتے ہوئے اپنی پہچان قائم کی جائے اور اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہوئے لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ ہیجڑا ہونا کوئی گالی نہیں۔ خواجہ سرا بھی معاشرے میں اتنی ہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے کوئی مرد یا عورت۔‘‘
ہیجڑا فیسٹیول کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کامی کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا پیدائش سے موت تک معاشرے میں دھتکارے جاتے ہیں، یہاں تک کہ انھیں اپنے خاندان میں بھی پذیرائی نہیں ملتی، نہ ہی ان کے ساتھ کوئی تقریب منانا پسند کرتا ہے، اس لیے اس فیسٹیول کے بہانے نہ صرف خواجہ سرا اپنی پہچان کو سیلیریٹ کریں گے بلکہ معاشرے اور حکومتی ایوانوں میں اپنی آواز بھی موثر انداز میں پہنچا سکیں گے۔
کامی نے کہا کہ اس فیسٹیول کی راہ میں معاشرے کی طرف سے ہی کافی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال بھی کئی مشکلات جھیلنا پڑی تھیں۔ سب سے پہلے تو لوگوں کو لفظ ’’ہیجڑا‘‘ سے ہی مسئلہ ہے۔ لیکن یہ ہماری شناخت کا معاملہ ہے، مشکلات اور رکاوٹیں ضرور ہیں لیکن خواجہ سرا کمیونٹی اپنی شناخت کے حصول میں پیچھے نہیں ہٹے گی۔
کامی چوہدری نے یہ بھی کہا کہ بے شک اس فیسٹیول کا نام ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ رکھا گیا ہے لیکن یہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام مظلوم اور ٹھکرائے ہوئے طبقات کی نمائندگی کےلیے ہے۔ اور ہر کوئی بنا تفریق رنگ و نسل اور جنس اس فیسٹیول میں شامل ہوسکتا ہے۔
فیسٹیول کے انعقاد کے حوالے سے اس اتوار کراچی پریس کلب میں خواجہ سرا برادری کی سرکردہ شخصیات نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں سماجی رہنما بندیا رعنا، کامی چوہدری، پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر سارہ گل، اور ہیجڑا فیسٹیول کی صدر حنا پٹھانی سمیت دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر فیسٹیول کی اہمیت اور معاشرے میں خواجہ سراؤں کی حیثیت پر گفتگو کی گئی۔
ڈاکٹر سارہ گل کا کہنا تھا کہ خواجہ سرا برادری کی خودمختاری کے فروغ اور ہمارے حقوق کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیے اس فیسٹیول کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ خواجہ سرا بندیا رعنا نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے باہر نکلنے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، مگر باشعور لوگوں نے ان کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ بندیا رعنا نے یہ بھی کہا کہ یہ فیسٹیول ہمارے مطالبات حکومت تک پہنچانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
کراچی کی خواجہ سرا کمیونٹی میں میرا گل بھی بہت مشہور اور سرکردہ شخصیت ہیں اور خواجہ سراؤں کے حقوق اور فلاح و بہبود کےلیے اپنی خدمات انجام دیتی رہتی ہیں۔ میرا گل نے اپنے حلقے میں ’’ہیجڑا فیسٹیول‘‘ کے لیے بہت زیادہ کام کیا ہے اور فیسٹیول کی کامیابی کےلیے ایڈورٹائزمنٹ اور ہر پلیٹ فارم پر آگاہی کےلیے کام کررہی ہیں۔ میرا گل کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کمیونٹی کے ہر فرد کو پورے خلوص دل کے ساتھ اس ایونٹ کےلیے کام کرنا چاہیے کیونکہ یہ آپ کا اپنا فیسٹیول ہے۔ اس فیسٹیول کے ذریعے ہم اپنی کمیونٹی کا مثبت چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ میرا گل نے فیسٹیول کی کامیابی کےلیے مختلف سوشل میڈیا کیمپین شروع کی ہیں اور اپنے مختلف واٹس ایپ گروپس کے ذریعے کمیونٹی ممبران کے ساتھ دیگر افراد کو بھی فیسٹیول میں شرکت کےلیے مدعو کررہی ہیں۔
فیسٹیول کے حوالے سے ہماری خواجہ سرا کمیونٹی کی مختلف نمایاں شخصیات سے بھی گفتگو ہوئی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈانسر روحیلہ عرف سینوریٹا کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کا کوئی دن نہیں ہوتا، کوئی خوشی نہیں منائی جاتی، اس لیے ہیجڑا فیسٹیول کا ایک مقصد خوشی کا دن منانا بھی ہے جس میں ہم اپنی قابلیت اور معاشرے میں ہم نے جو مقام بنایا ہے اسے اچھے انداز سے بھی پیش کرسکیں۔ یہ ہمارا ایک خوشی کا دن ہے جس میں دوسروں لوگوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ گزشتہ سال بھی فیسٹیول کی میڈیا کوریج کی وجہ سے اسے کامیابی ملی تھی۔ ہماری کمیونٹی میں شادیاں نہیں ہوتیں، لیکن ہم دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، لہٰذا اس بار شہری ہماری خوشیوں میں شریک ہوں۔
خواجہ سرا کمیونٹی معاشرے میں اپنی شناخت کےلیے سرگرداں ہے اور مختلف جہات میں معاشرے میں اپنی قابل عزت جگہ بنانے کےلیے کوشش کررہی ہے۔ ہیجڑا فیسٹیول بھی ان ہی کوششوں میں سے ایک ہے جسے پذیرائی ملنی چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
[ad_2]
Source link