1

حکومت سازی، امیدیں، توقعات، چیلنجز

(فوٹو : ایکسپریس)

(فوٹو : ایکسپریس)

عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا عمل بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں حکومت سازی کے لیے معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے کے تحت صدر مملکت آصف زرداری جب کہ وزیراعظم شہباز شریف ہوں گے۔ قومی اسمبلی کا اسپیکر ن لیگ جب کہ چیئرمین سینیٹ پیپلزپارٹی سے ہوگا۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی و صوبائی سطح پر حکومتوں کی تشکیل کا منظر نامہ بھی بالکل واضح ہوگیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا امریکی فرم کے ساتھ 20 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نمک کی کان کنی میں امریکی کمپنی کی 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد کی عکاس ہے۔

نئی حکومت کو معیشت، سیکیورٹی اور سیاسی معاملات کے علاوہ پی آئی اے کی نجکاری اور ایف بی آر اصلاحات سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ سب سے الارمنگ چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا اثر پاکستان کی زراعت کے شعبے پر براہ راست پڑے گا، اس حوالے سے لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہو گی۔ پہلے مرحلے پر نئی حکومت کو چند اقدامات کرنا ہوں گے۔

مہنگائی پر قابو پانا، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانا، معاشی میدان میں مضبوطی اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی جب کہ دوسرے مرحلے میں زرعی اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترقیاتی کام، انفرا اسٹرکچرکی بہتری تاکہ کاروبار اور روزگار کے مواقع بڑھیں اور تعلیم میں بالخصوص آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

موجودہ معاشی حالات میں افراط زر یعنی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے قوت خرید میں کمی اور بے روزگاری بڑھے گی جس کے باعث غربت میں بھی اضافہ ہوگا، اگر ملک واقعی ان مشکل حالات اور بڑھتی ہوئی غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو حکومت کو ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا ہوگا۔

پاکستان میں عوام کو خط غربت سے بچانے کے لیے حکومت کو کارپوریٹ سیکٹر پر قوانین لاگو کرنے ہوں گے، جو مزدوروں اور ملازمین کوکم اجرت پر رکھ کر ان کا استحصال کرتے ہیں، کیونکہ غربت کی شرح میں اضافے کی وجوہات ایک خاندان کا تین نسلوں کو پالنا، گھر میں پانچ سے دس افراد میں صرف ایک شخص کی کمائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

نوجوانوں کو روزگار، صحت عامہ سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی بہتر بنانے سے غربت میں کمی ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس نیٹ کو غریبوں سے نکال کر امیروں تک لے جانا چاہیے کیونکہ روزمرہ اشیائے ضروریہ پر جی ایس ٹی کے ذریعے اربوں روپے تو اکٹھے کیے جا رہے مگر جتنا ریونیو اکٹھا کیا جاتا ہے اس کا نصف بھی عام آدمی پر نہیں لگتا نظر آتا۔

وفاقی حکومت کو جو مسائل اور چیلنجز درپیش ہوں گے، ان سے قطع نظر اگر صرف بلوچستان کی بات کی جائے تو ان میں سب سے بڑا مسئلہ تو امن و امان کا رہا ہے، جس کا اندازہ انتخابات کے دوران دہشت گردی کے واقعات اور انتخابی مہم کے معطل ہونے سے لگایا جاسکتا ہے،کئی قیمتی جانیں خودکش حملوں کی نذر ہوئیں جب کہ کئی سو افراد زخمی ہوکر مختلف معذوری کا شکار ہوئے۔

ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آیندہ بھی دہشت گردی ایک مسلسل خطرہ رہے گی، اس کے علاوہ بھی اندرون صوبہ تخریب کاری کے واقعات رونماء ہوتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں صحت، تعلیم، بنیادی انفرا اسٹرکچر، روزگار سمیت مختلف مسائل تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ان کے علاوہ صوبے میں جو مسئلہ فوری طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے وہ پینے کے پانی کا بحران ہے۔

پینے کے پانی کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہے اور پچاس فیصد کے قریب شہری روز مرہ ضرورت اور استعمال کے لیے پینے کا پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجوہات ہیں جن میں برف باری اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کا گرنا اور واسا کے بیشتر ٹیوب ویلوں کا خشک ہوجانا ہے۔

بہرحال اب اس مسئلے سے کس طرح سے نمٹنا ہے کہ آیندہ حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا، اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ رہ گئی بات تعلیم اور صحت کے شعبے سے متعلق مسائل کی تو ان شعبوں میں گزشتہ دور میں بجٹ کا ریکارڈ حصہ مختص کیے جانے کے باوجود کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آسکی۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ صوبے کے بیشتر اسکولوں میں طالب علم آج بھی پینے کے پانی، چھت، بیت الخلاء سمیت دیگر تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں۔

شعبہ صحت کی زبوں حالی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دوران زچگی ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے۔ عوام کو امید ہے کہ اب محض دعوے اور نعرے نہیں بلکہ صحیح معنوں میں کام ہوگا۔نئی وفاقی حکومت کو جون میں ایک مشکل بجٹ کا اعلان بھی کرنا ہوگا، جس میں سبسڈیز (مراعات) کی واپسی اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی ضرورت ہو گی۔ اسی طرح بیرونی ادائیگیوں کے لیے مالیاتی ضرورت بہت زیادہ ہے۔

260 ارب ڈالر کے کل قرضوں میں سے 116 ارب ڈالرکے بیرونی قرضے ہیں۔ اسی طرح مہنگائی کا، جو دسمبر 2023 میں 29.7 فیصد تھی، 2024 میں 20 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے۔ دریں اثنا 2024 میں شرح نمو ایک دو فیصد کے آس پاس رہے گی۔ سیکیورٹی کے محاذ پر حالات تشویش ناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ بلوچ باغی، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسلامک اسٹیٹ آف خراسان (آئی ایس کے) جیسی تنظیمیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی معاشرے کو اس وقت گونا گوں مسائل نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، آبادی کا بڑا حصہ غربت اور بے روز گاری سے دوچار ہے۔ وطن عزیز کی 38 فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ لوگوں میں بے چینی اور اضطراب پھیل رہا ہے غربت اور مہنگائی کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت ان مسائل کے حل کے لیے گھریلو اور نجی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرے، بے روز گاری کے خاتمے کے لیے نئے مواقعے پیدا کرے اور اس سلسلے میں آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ غریب لوگ اپنا کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش بناسکیں اور ان کی مشکلات میں کمی آئے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری شرح خواندگی بھی کم ہے اور ہماری 40 فی صد آبادی بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہے اور ناخواندہ افراد ملک کی تعمیر و ترقی میں قابل رشک کردار ادا نہیں کر سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور نئے اسکول کھولے اور پرانے تعلیمی اداروں کو اپ گریڈ کر ے بلا شبہ اس ضمن میں حکومتی سطح پر اقدام کیے جا رہے ہیں لیکن وہ افراط آبادی کے مقابلے میں کم ہیں۔

اس دور جدید میں پاکستانی معاشرے کو صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے اور دیہی علاقوں میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں بھی میسر نہیں، صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت صحت کے مسائل کو حل کرنے میں سرگرداں ہے لیکن تاحال دیہی علاقوں میں بنیادی مراکز صحت، اسپتالوں اور ڈاکٹروں، نرسوں، ادویات جدید سہولتوں کا فقدان ہے۔

افراط آبادی بھی معاشرتی مسئلہ ہے آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تعلیم، صحت بے روز گاری اور آلودگی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے ایک گنجان آباد ملک ہے مگر ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ صحت کے شعبے پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی سالانہ بجٹ میں ایک قلیل رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے۔

محکمہ صحت اسپتالوں، ڈسپنسریوں، ٹی بی کلینکس اور رورل ہیلتھ سینٹرز بنیادی مراکز صحت اور میٹرنٹی کے مراکز کے ذریعے سے خدمات سر انجام دے رہا ہے لیکن ایسے علاقے موجود ہیں جہاں صحت کی سہولیات موجود نہیں حکومت معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدام کرے تاکہ تعلیم، صحت اور آلودگی جیسے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ نئی حکومت کے سامنے سیاسی عدم استحکام، معیشت کی بحالی کے ساتھ مہنگائی اور بیروزگاری کے چیلنجز منہ کھولے موجود ہیں، مہنگائی نے ہر شخص اور ہر خاندان کو اذیت کی وادی کا مسافر بنا دیا ہے۔

بڑھتی ہوئی گرانی معاشرے کی بنیادیں ہلا رہی ہے۔ اس مسئلے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ساری حکومتوں نے صرف چند اشیاء کی ایکسپورٹ پہ انحصارکیا، جس کی وجہ سے روزگارکے کافی مواقعے پیدا نہیں ہو سکے۔ ہم صرف ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ پر توجہ دیتے ہیں، اگر تیس بلین ڈالرزکی مجموعی ایکسپورٹ ہوتی ہے، تواس میں بائیس بلین ڈالرز ٹیکسٹائل کے ہوتے ہیں۔ ہمیں پھل، سبزیاں، آئی ٹی اور دوسری طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔

ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ پوری دنیا میں ایک صرف ٹیکس ادا کرنے والا اور دوسرا ٹیکس چور ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں فائلرز اور نان فائلرز کی بات ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقعے فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کی جائے ،لہٰذا نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ایف بی آر میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں