12

ساجھے کی ہنڈیا پھوٹ گئی

گزشتہ دنوں ایک خبرنے ہمیں پہلے تو ہنساہنسا کر رلا دیا اورپھر رلارلا کر ہنسا دیا ، یہ خبر محترمہ بی بی بشریٰ سابق خاتون اول کے سابق شوہراول کے حوالے سے تھی ۔

خبر کے مطابق ’’آں جناب‘‘ نے کسی عدالت میں میں پیش ہوکر اپنی سابق منکوحہ اورچیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف شکایت درج کرائی ہے اور ان دونوں کو سخت سزا کی استدعا کی ہے۔

ان کے سارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ بشریٰ بی بی میری بیوی تھی ہماری اچھی خاصی ازدواجی زندگی گزررہی تھی لیکن چیئرمین پی ٹی آئی نے مریدی کے بہانے میرے گھر میں داخل ہوکر نقب لگائی اورمیری منکوحہ کو اپنی بیوی بنالیا ۔

کہانی تو سب کو معلوم ہے اس لیے ہم تفصیل میں نہیں جائیں گے نہ ہی اس کہانی یامقدمے کے بارے میں کچھ کہیں گے یہ عدالت کاکام ہے حالات و واقعات، بیانات ثبوتوں شہادتوں اور وکلاء کی دلائل کی روشنی میں کیافیصلہ کرتی ہے ہم تو بس اتنا کہناچاہتے ہیں کہ

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اس طرح کے لوگوں میں اوراس طرح کے خاندانوں میں

کچھ عرصہ پہلے جناب خاورمانیکا یعنی بشریٰ بی بی خاتون اول کے اس شوہر اول کے بارے میں خبر آئی تھی کہ اس پر کرپشن کے کئی مقدمات قائم کیے گئے ہیں یوں ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بلکہ نہیں بلکہ بہت ساری کہانیاں کہہ رہی ہیں کہ ساجھے کی ہانڈی بیج چوراہے میں پھوٹ جاتی ہے اورپھر جوتیوں میں دال بٹنے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ، اس لیے ایک پشتو ٹپے کاترجمہ بھی پیش کیے دیتے ہیں کہ جب یاری تھی تو ہماری تمہاری تھی اوراب جدائی ہوگئی تو سارے عالم میں ڈھنڈورا پٹ گیا ۔

انسان نے بہت زیادہ تر قی کرلی ہے بہت ہی ذہین وفطین ہوگیاہے لیکن ایک یہ بات اس کی سمجھ میں ابھی نہیں آئی ہے کہ مکافات عمل انسان کو اپنی لپیٹ میں ضرورلیتے ہیں کہ زہرتو زہرہوتاہے کھاؤ گے تو مروگے ضرور۔

ہمارے گاؤں میں ایک بہت ہی اونچے درجے کاخاندان تھا، دولت جائیداد شہرت طاقت اثر رسوخ میں اس کی مثال نہیں تھی اورخاندان میں بہت سارے جوانوں کی شکل میں افرادی قوت بھی بہت زیادہ تھی لیکن ساتھ ہی کوئی نہ کوئی مسئلہ بھی ان کو لاحق رہتاتھا، دشمنیاں قتل وقتال مقدمات ناقابل علاج بیماریاں اور حادثے۔ چنانچہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے ان کا گھر چیونٹی کاگھر بن گیا۔

کہتے ہیں کہ چیونٹی کاگھر کبھی ماتم سے خالی نہیں ہوتا۔ ہمارے ایک بزرگ تھے جو بہت ہی دانا وبینا تھے ایک دن ہم نے ان سے پوچھا یہ نمبرداروں کا خاندان بھی کتنا بدقسمت خاندان ہے دنیا جہاں کی پریشانیوں میں ہروقت مبتلارہتاہے، کیوں کہ ان دنوں اس خاندان کے گھر میں کالا یرقان گھسا ہوا تھا جس نے اس خاندان کے بہت سارے افراد کھالیے تھے جب کہ کچھ افراد ایک جان لیوا دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے اورکئی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے۔

کچھ کو بے اولادی کاروگ لگا ہوا تھا۔ مجھے تو ان پر بہت ترس آتا ہے اتنا کچھ ہوتے ہوئے بدنصیبی ان کی مہمان ہوگئی ہے۔

بزرگ نے ہنس کر کہا ،بدنصیبی نہیں بلکہ بداعمالی کہو جو لوگ زہرکھاتے ہیں وہ موت سے بچ نہیں سکتے ، یہ سب ان کا خود کاکمایا ہواہے جو اب اس کی جھولی میں پڑ رہاہے ۔پھر اس بزرگ نے تفصیل بتائی کہ اس خاندان نے کب کب کیا کیا ظلم کیے ہیں اوریہ سب کچھ جو اب اس کے ساتھ ہورہاہے خود ان کااپنابویاہواہے ۔

ازمکافات عمل غافل مشق

گندم ازگندم بروئد جو جو

ہرانسان کو اس دنیا میں بھی اپنا بویا ہوا کاٹنا پڑتاہے اب پاکستان کے ان اونچے لوگوں کو لے لیئجے آباء اجداد نے صدیوں اورپشتا پشت کی غداریوں، نمک حرامیوں، ضمیرفروشیوں اورملک وقوم فروشیوں سے اتنا کچھ کمایا ہے کہ اصولی طور پر ان کی اولادوں کو بڑے آرام وسکون سے اورلطف لطف اٹھا اٹھا کر ایک قابل رشک اورمثالی زندگی گزارنا چاہیے تھے جس سے قدم قدم پر راحتوں اورنعمتوں کانزول ہوتا۔

ایک مشہورجملہ بھی ہے کہ فلاں نے اتنی دولت کمائی ہے فلاں کے اجداد نے اتنا کچھ چھوڑا ہے کہ سات پشتوں تک کے لیے کافی ہے لیکن عملاً ان کی وہ پشتیں دولت، جائیدادوں ، نوکروں چاکروں اور ہر طرح کی تعیشات کے باوجود کسی نہ کسی ’’بلا‘‘ میں گرفتار رہتی ہیں اورآج کی سب سے بڑی ’’بلا‘‘ کوئی ہم سے اتفاق کرے یا نہ کرے سیاست ہے جس کاسب سے بڑا پھل۔ جھوٹ کا زندہ باد اورسچ کامردہ باد ہوتا ہے، ہرہر قسم کی رسوائیاں، بدنامیاں، گالیاں، کوسنے اور بددعائیں، رسوا کن کہانیاں، شرم ناک مقدمے اوردن رات کی پریشانیاں۔

شامت اعمال ماصورت نادرگرفت

ہم نے کچھ لوگوں کاذکر کیاہے اگر آرام سے اپنے نصیب پر صبر شکر کرتے تو کتنی آرام اورعزت کی زندگی گزارتے لیکن حرص لالچ وہوس اور’’ہل مزید‘‘ نے ان کو کہیں کا نہیں رکھا اورخود ہی اپنی سزاؤں کے اسباب کمالے لگے اورکمارہے ہیں۔

اسے ہمارے اس بزرگ دانا نے ’’خودسزائی‘‘ کانام دے رکھاہے یعنی یہ خود ہی اپنے اعمال کی سزا بن جاتے ہیں لیکن افسوس کہ وہی ’’لایشعرون‘‘ میں پھنسے ہوتے ہیں بلکہ یہ لایشعرون بھی ایک سزاہے ۔

اب اس تازہ ترین کہانی یاڈرامے بلکہ پڑوسی ملک کی اصطلاح میں ’’نوٹنکی‘‘پر غورکیجیے ، درون پردہ جو کچھ عرصے سے چل رہاتھا اگر اس پر صبر کرتے تو آج یوں رسوائے عام طشت ازبام نہ ہوتے۔کوئی ان سے پوچھے کہ یہ اتنا عرصہ جب یہ خاموش تھے تو کیا وہ بے ہوش تھے ؟

اوراب ہوش میں آئے۔ بلکہ ان باتوں کاطشت ازبام ہوناتو ابھی باقی ہے جو ’’چولی‘‘ کے پیچھے یاچنری کے نیچے پنہاں ہے ابھی تو صرف کٹھ پتلیاؒںناچنا شروع ہوئی ہیں وہ تار اورماسٹر کی وہ انگلیاں تو ابھی پردے میں ہے جب خاورمانیکا کوجاگنے میں پانچ چھ سال لگے اوراوروں کو بھی جاگنے اوربولنے میں وقت لگے گا۔

ایک بہت پرانا سیاسی نغمہ یادآرہاہے جوخدائی خدمت گاروں نے مسلم لیگ کے خلاف لانچ کیاتھا جس کااردو مفہوم یہ ہے ۔

ساری رات سوتے رہے

سحری کے وقت جاگ گئے

تو مسلم لیگ ہوئے





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں