[ad_1]
کراچی:
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ مختلف معاشی شعبوں سے نکل جانا حکومت کے حق میں بہتر ہے،یکم جولائی سے بھرتی ہونیوالے کسی ملازم کو سرکاری پنشن نہیں ملیگی.
وفاقی وزیر نے کہا کہ چاول اور مکئی کی پیداوار میں حکومت کی عدم موجودگی سے نمو ہوئی،چاول کی برآمدات 4 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ، پنجاب حکومت کا گندم کی سپورٹ پرائس مقرر نہ کرنا درست اقدام ہے۔
فیوچر سمٹ کے آٹھویں ایڈیشن سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں نجی شعبہ کو کردار ادا کرنا ہوگا، سرکاری تحقیقی ادارے کچھ کررہے ہوتے تو زراعت کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوتی۔انہوں نے کہا کہ میکرو اکنامک اعشاریئے بتدریج بہتر اور خسارے سرپلس میں تبدیل ہوچکے۔
ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ،روپے کی قدر مستحکم ہوئی،مہنگائی کمی آئی، شرح سود میں کمی سے قبل انٹربینک ریٹ کائبور 13 فیصد تک آگیا اور نجی شعبہ کو مناسب شرح پر قرضوں کی سہولت مل رہی، امید ہے کہ رواں مالی سال کریڈٹ ریٹنگ سنگل بی ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ معاشی اصلاحات کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، رائٹ سائزنگ اور پینشن اصلاحات بھی ضروری ہیں، ٹیکس ریونیو 9.4 ٹریلین جبکہ زیر گردش کرنسی 9 ٹریلین ہے، اسے تبدیل کرنے کی کوشش سے مسائل پیدا ہوں گے، ٹیکس ریونیو نہ بڑھا تو تنخواہ دار طبقے اور صنعتوں پر بوجھ بڑھے گا۔
انہوں نے کہاکہ سرکاری اداروں کی ڈیجیٹلائزیشن سے کرپشن پرقابوپانے میں مدد ملے گی، معشیت کا ڈی این اے تبدیل کرکے برآمدات پرمبنی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو ترجیح اور عالمی کیپیٹل مارکیٹوں تک رسائی بڑھائی جائے گی۔
بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ زراعت اور آئی ٹی میں نمو دوگنا ہوسکتی ہے، ترسیلات زر میں اضافے کا رحجان برقرار رہا تو حجم 34 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنشن اصلاحات کا مقصد اخراجات میں کمی لانا ہے، یکم جولائی سے بھرتی ملازمین پنشن کے حق دار نہیں ہونگے،
پنشن کیلئے سیلف فنڈڈ پنشن سکیم کے تحت کٹوتی کرانا ہو گی، موجودہ ریٹائرڈ ملازمین اور یکم جولائی 2025 سے قبل کی بھرتیوں کیلئے پنشن ایک مسئلہ ہے۔ بڑھتی آبادی پر انہوں نے کہا کہ آبادی میں 2.55 فیصد سالانہ اضافہ ملکی بقا کا مسئلہ بن چکا۔
یہ اضافہ ٹائم بم نہیں، بلکہ وہ بم ہے جو پھٹ چکا، اس کی وجہ سے ہمارے بچے ناقص غذائیت کا شکار ہیں، صحت، غذائیت، خاندانی منصوبہ بندی، صاف پانی اور حفظان صحت کے ایجنڈے کو ہمیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
[ad_2]
Source link