11

سال 2023 کا ورثہ – ایکسپریس اردو

سال 2023 اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ 2023 کا سال پاکستان کی سیاست اور معیشت کے لیے انتہائی اہم سال ثابت ہوا۔ اس سال کے دوران پاکستان پہلی بار ڈیفالٹ کے دہانے جا پہنچا۔ ڈیفالٹ سے واپسی کی قیمت شرح مبادلہ میں بھاری کمی اور شدید مہنگائی کی صورت میں عوام کو ادا کرنی پڑی۔

نیا سال2024 اپنے دامن میں بہت سی بے یقینی لیے ہوئے ہے۔ سب سے بڑی بے یقینی الیکشن کی صورت میں سامنے ہے۔ آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد کیا خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے؟ نئی حکومت کے اجزائے ترکیبی کیا ہوں گے؟ اس کی ترجیحات کیا ہوں گی؟

نئی حکومت سیاسی مینڈیٹ کے اعتبار سے کس قدر مستحکم ہوگی اور ملک میں سیاسی اور پائیدار استحکام کا باعث ہو سکے گی؟ اس ایک سوال کے جواب پر سال 2024 کے بہت سے دیگر جوابوں کا دارومدار ہوگا۔

2023کے اختتام پر پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ اس کا ایک ادنیٰ سا اظہار عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے بقول کچھ یوں ہے: پاکستان کا معاشی ماڈل ناکارہ ہو چکا ہے، پاکستان کو اپنی معیشت کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود ہیں۔ پاکستان خطے کے ساتھی ملکوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔

غربت میں ہوئی کمی پھر سے بڑھنے لگی ہے۔ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ پالیسی بدلنا ضروری ہے لیکن بظاہر پالیسی بدلنے کی سوچ پر اشرافیہ میں اتفاق دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ زرعی اور انرجی شعبوں کی خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بظاہر وعدے وعید کے باوجود ریفارمز کو روکا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں کاروباری ماحول خصوصا چھوٹے اور درمیانے کاروباری کے ماحول میں بہتری کی شدید ضرورت ہے۔

پاکستان میں نظام، قرضوں کی لاگت اور ریاست کے آمدن کے ذرایع پائیدار نہیں ہیں، ہیومن ریسورس اور انفرااسٹرکچر کی ترقی پر اخراجات بھی محدود ہیں۔ دوسری جانب حکومتی اخراجات کا حجم نسبتاً بہت زیادہ ہے جسے ریفارمز کے ذریعے کنٹرول میں لانے کی ضرورت ہے۔

یو این ڈی پی کی اسی رپورٹ میں ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کے حوالے سے خوفناک اشاریے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی اداروں کے ان رپورٹس میں کمزور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکیٹرز کا رونا سالہا سال سے موجود ہے ۔ یاد دہانی کے لیے چند ایک اشاریوں کا ذکر مناسب ہوگا۔پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں اسٹنٹڈ گروتھ کی تعداد 40فیصد ہے۔

تقریباً سات فیصد بچے اپنی پانچ سالہ طبعی مدت سے پہلے راہی عدم کو سدھار جاتے ہیں۔ آبادی کی ایک وسیع تعداد کو آج بھی صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔  ویسٹ اور سینیٹیشن کی سہولیات، بنیادی صحت، کم از کم خوراک اور تعلیم کی مناسب سہولیات دور دراز علاقوں حتیٰ کہ بڑے شہروں میں بھی معیار سے کہیں کم ہے۔

سر پیٹنے کو اور بھی بہت سارے اشاریے ہیں مثلاً ایک عام پاکستانی کے حصے میں اوسطاً اسکول میں بمشکل آٹھ سال کی تعلیم کا ریکارڈ ہے۔جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔

صحت کی بنیادی سہولیات کا سیاسی ڈھنڈورا اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ10ہزار لوگوں کے لیے چھ بیڈز اور 1300افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر کی دستیابی ہے۔ صحت کا انفرااسٹرکچر اور سروسز کی فراہمی میں کرپشن اور دیگر مسائل کے ہوتے ہوئے یہ گمان کرنا کہ 2024میں کوئی بنیادی تبدیلی آ جائے گی مشکل لگتا ہے۔

پاکستان دنیا بھر کے 192ممالک کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں ایک161ویں نمبر پر ہے۔ 2021-22 کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں اس قدر نچلی پوزیشن کی اہم وجوہات میں شرمناک تعلیمی سہولیات اور معیار، مخدوش صحت سہولیات اور آمدن کے محدود ذرایع ہیں۔

خطے میں دوسرے علاقوں سے موازنہ کیا جائے تو بھارت کا اسی انڈیکس میں 132واں نمبر ہے۔بنگلہ دیش بھارت سے قدرے بہتر پوزیشن پر 129ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ سری لنکا جسے اس سال ڈیفالٹ کا سامنا بھی کرنا پڑا ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں 73ویں نمبر پر ہے۔

پاکستان گورننس کے جن مسائل کا شکار ہے یہ کچھ پاکستان ہی سے مخصوص نہیں ہیں، خطے اور دنیا میں بہت سارے ممالک اس سے ملتے جلتے مسائل بلکہ ان سے زیادہ مہیب اور خوفناک حالات اور مسائل کا شکار رہے۔

تاہم ان میں سے بیشتر ممالک نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا، دنیا میں پائے جانے والے مواقع کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا اور دھیرے دھیرے بہتر گورننس اور استحکام کی طرف رواں دواں ہو گئے۔

انڈونیشیا ،تھائی لینڈ، انڈیا ،ویتنام سمیت بہت سے ایسے دیگر ممالک ہیں جنھوں نے سوچ بچار کے بعد دیر پا اور پائیدار پالیسی شفٹ کو اپنے اہم اداروں اور سیکٹرز میں نافذ کیا، جس سے ان ممالک میں گروتھ ممکن ہوئی اور لوگوں کے رہن سہن کے معیار میں بڑی واضح بہتری آئی۔

ہمارے معاشی اور انتظامی اسٹرکچر میں بنیادی خامیاں ہیں، ان خامیوں کا ادراک ہونے کے باوجود اشرافیہ اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی کی طرف سے ان پر ایسا اخلاقی اور انتخابی دباؤ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں۔ اشرافیہ پاکستان کے مسائل کی ذمے دار رہی ہے۔نواز شریف اور نون لیگ کا بنیادی مسئلہ ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا حساب لینا ہے۔

بقول نواز شریف ترقی کے سفر کو وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں انھوں نے چھوڑا تھا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو کے بقول پرانی طرز سیاست کا دور گیا ، اب وہ نئی طرز کی سیاست کریں گے۔گڑھی خدا بخش میں اپنے دس نکاتی منشور کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے پانچ سالوں میں تنخواہیں دو گنا کرنے اور دیگر اقدامات کا اعلان کیا۔

پی ٹی آئی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اسے نئے منشور کی فرصت تو نہیں۔مسائل کا انبار جو سال 2023 کو گزشتہ سال ورثے میں ملا تھا، بدقسمتی سے سال 2023کے پاس نئے سال کو ورثے میں دینے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مسائل ہیں۔ اللہ تعالی اس ملک پر رحم فرمائے۔ گو امید کی وجوہات تو بہت کم ہیں تاہم توقع کرنی چاہیے کہ 2024کے بطن سے سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں