10

کاری!

مسمات A (شناخت ظاہر نہیں کی جاسکتی) سندھ کے پسماندہ شہر جیکب آباد کے کسی گاؤں کی رہنے والی ہیں۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانہ سے ہے۔ والدین نے اس کی شادی ایک اور غریب خاندان میں کردی۔ اس کا شوہر ٹھیلے پر اشیاء فروخت کرتا ہے، یوں ورثہ میں ملی ہوئی غربت ایک اور خاندان کو منتقل ہوئی، مسمات A کے تین بچے پیدا ہوگئے۔ اس عورت نے اپنے خاندان کے حالات کوبہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی اسکیم لیڈی ہیلتھ ورکر کے شعبہ میں ملازمت کر لی۔ مسمات A کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم میں شامل کرلیا گیا، یوں کچھ آمدنی ہونے لگی، وہ تندہی سے اپنے فرائض انجام دینے لگیں اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی نپٹاتی تھیں۔

اس ماہ جب بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا آغاز ہوا تو مسمات A کی ڈیوٹی جیکب آباد کے نواحی گاؤں الٰہی بخش جکھرانی میں لگا دی گئی۔ عمومی طور پر پولیو کے قطرے پلانے کی ٹیم میں تین افراد ہوتے ہیں اور ٹیم کا ایک انچارج ہوتا ہے۔ پولیس کے ایک یا دو سپاہی بھی اس ٹیم کی حفاظت کے لیے ساتھ ہوتے ہیں مگر شاید اس دن پولیس اہلکار ساتھ میں نہیں تھے جب مسمات A نے گوٹھ اﷲ بخش جکھرانی کے آخری مکان پر دستک دیدی اور میسر آنے والے بچہ کو پولیو کے قطرے پلادیے تو تین مسلح افراد اچانک کہیں سے نمودار ہوئے۔

ان مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر مسمات A کو اغواء کیا، جنگل میں لے گئے جہاں اس کی آبروریزی کی گئی۔ ان ظالموں نے پھر مسمات A پر بد ترین تشدد بھی کیا اور اس کی موبائل فون پر فلم بھی بنائی۔ یہ مظلوم عورت گاؤں پہنچی مگر گاؤں کے کسی فرد نے اس کی مدد نہیں کی۔ جب مسمات A اس خوف ناک صورتحال سے گزر کر اپنے گھر پہنچی تو اس کے شوہر نے اس کو کاری قرار دے کر گھر سے نکال دیا اور تینوں بچے چھین لیے، اس جرم کا مقدمہ درج ہوا۔ مسمات A کو ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مسمات A عدالت میں بیان دیتے ہوئے بے ہوش ہوگئیں۔ اس نے بتایا کہ سامنے آنے پر وہ ملزمان کو شناخت کرسکتی ہے۔

مسمات A کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مجرمانہ حملے کی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی جائیں کیونکہ اس واقعے کے بعد بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم رکنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں جس سے سیکڑوں بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑگئی ہیں۔ عدالت نے بچے شوہر سے واپس لے کر مسمات Aکے حوالے کرنے کے احکامات جاری کیے جن پر عملدرآمد بھی ہوا۔ جب اس واقعے کی سوشل میڈیا پر تشہیر ہوئی تو پولیس کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا خیال آیا۔ آئی جی نے احکامات جاری کیے اور اس واقعے کی ڈی آئی جی سکھر رینج نے خود تحقیقات کیں۔ ڈی آئی جی سکھر پیر محمد شاہ جیکب آباد گئے۔ انھوں نے مسمات A کے بیانات قلم بند کیے۔

مسمات A کے والد نے ڈی آئی جی کو بتایا کہ ملزمان اور ان کی بیٹی کے سسرال والے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جیکب آباد اور دیگر شہروں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے احتجاج کرنا شروع کیا۔ جیکب آباد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے احتجاجی جلوس نکالا۔ اس جلوس میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی شامل ہوئیں اور سوشل میڈیا پر پولیو ورکرز کے تحفظ کے تناظر میں ایک مہم شروع ہوئی۔ کراچی میں سندھ حکومت کے فیصلہ ساز رہنماؤں کو صورتحال کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر، ڈی ایچ او اور ایس ایس پی کی تبدیلی کے احکامات جاری کیے۔ اس کے شوہر اور دیورکو دھمکیاں دینے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا، مگر سندھ اور بلوچستان کی فرسودہ رسم ’’کاری‘‘ کے خاتمہ کے لیے کچھ نہ ہوسکا۔

پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں اب بھی بچے پولیو کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ گزشتہ 24 برسوں سے ہر حکومت نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم منظم کی مگر 2011میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک گھر میں روپوشی، امریکی میرین دستوں کے ہاتھوں اس کی برآمدگی اور پھر ہلاکت کے بعد چاروں صوبوں میں انتہا پسند عناصر نے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے شروع کردیے۔

یہی وجہ ہے کہ 2012 سے اب تک 26 افراد جن میں پولیو ورکرز اور پولیس کے سپاہی شامل ہیں شہید ہوچکے ہیں اور دوسری طرف ہر سال میں کئی دفعہ پورے ملک میں چلائی جانے والی پولیو مہم کے باوجود 17 بچے پولیو کے مرض کی بناء پر معذور ہوگئے ہیں۔ پہلے سندھ میں کئی شہروں جن میں کراچی بھی شامل ہے نامعلوم افراد پولیو ورکرز پر فائرنگ کر کے ہلاک کرتے تھے مگر پھر سندھ اور پنجاب میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے پر ان صوبوں میں پولیو ورکرز پر مسلح حملوں میں کمی آئی، البتہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں کوئی کمی نہیں آئی۔

پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک ایک خاتون 24 سالہ مسمات بی بی جی نے صحافیوں کو بتایا کہ عمومی طور پر دو افراد موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر آنے والے پولیس کے سپاہیوں پر فائرنگ کر کے اطمینان سے فرار ہوجاتے ہیں، یہ ملزمان کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ انتہا پسند گروہ اتنے طاقتور ہیں کہ یہ گاؤں میں بچوں کے والدین کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے تو ان کی زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔

اگر گزشتہ 50 سال کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقام سوات پر ملا فضل اﷲ نے اپنے ایف ایم ریڈیوکے ذریعے پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم چلائی تھی اور وبائی امراض سے بچنے کے طریقوں کو جرم قرار دیا تھا۔ جب یہ خبریں کہ امریکاکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ڈاکٹر آفریدی کے ذریعے خون کے نمونے جمع کرنے کی مہم چلائی تھی تو پھر انتہا پسند عناصر کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے خلاف پروپیگنڈے کرنے کا نیا موقع مل گیا تھا۔ برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے علمائے کرام کو پولیو کے مرض کے خاتمے کی مہم کی حمایت کے لیے تیار کیا اور ان علماء نے عوام کو بتایا کہ ان قطروں کا کوئی نقصان نہیں ہے تو کچھ حالات بہتر ہوئے تھے مگر اب سابقہ قبائلی علاقوں کے لوگوں نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے بدلے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرانے سے مشروط کرکے صورتحال کو مزید گھمبیرکیا ہے۔

پولیو کی مہم کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں منظم گروہ اب پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو سڑکوں کی تعمیر اور واٹر سپلائی کے منصوبے شرو ع کرنے سے مشروط کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کاکا خیل قبائل نے تو یہ بھی مطالبہ کیا کہ جو لوگ آپریشن کی بناء پر علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے پہلے ان افراد کو واپس لایا جائے تو صورتحال مزید خراب ہوگئی۔

پشاور کی ایک خاتون افسر کا تخمینہ ہے کہ ہر مہم میں والدین بیس ہزار کے قریب بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کردیتے ہیں۔ بلوچستان کے بارے میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پشتون علاقہ میں والدین لڑکیوں کو تو قطرے پلانے پر تیار ہوجاتے ہیں مگر اپنے لڑکوں کو جس کو اس علاقے میں Gold Child کہا جاتا ہے قطرے پلانے پر تیار نہیں ہوتے۔ بعض عناصر یہ بھی پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان میں بل گیٹس جیسے آدمی کو اس مہم کے لیے اتنی سرمایہ کاری کی کیا ضرورت ہے؟ ان گمراہ کن عناصر کو کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ جب کوئی پولیوکا مریض دوسرے ملک جاتا ہے تو وہاں اس مرض کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

پولیو کی مہم کی بناء پر ایک معصوم عورت کوکاری قرار دینا سندھی سماج کی پسماندگی کی انتہا ہے۔ عورت کے شوہر اور دیور کی گرفتاری سے عورت کو تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ اس رسم کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ بڑے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاستی اداروں کو پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کے تحفظ کے لیے ان انتہاپسند گروہوں کا خاتمہ کرنا ہوگا جو انھیں نشانہ بناتے ہیں۔ مضمون میں تذکرہ ہوا تھا کہ کس طرح ایک یہودی بروکر خائم سالومن نے امریکا کی جنگِ آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خود کو سرمائے سمیت آزادی کے مقصد کے لیے وقف کر دیا۔خائم کے بعد امریکا کی یہودی کمیونٹی نے پچھلے ڈھائی سو برس میں خود کو کس طرح مقامی سیاست اور حکومت میں فعال رکھا۔آج اس بابت کچھ بات کرتے ہیں۔

امریکن اسرائیل کوآپریٹو انٹر پرائیز کا ایک کام امریکی زندگی میں یہودیوں کی حصہ داری کو نمایاں کرنا ہے۔اس کے جمع کردہ تحقیقی مواد کے استفادے سے درجِ ذیل معلومات حاصل ہوئیں۔

امریکا کے اعلانِ آزادی سے ایک سال پہلے ریاست جنوبی کیرولائنا کی قانون ساز اسمبلی کے لیے فرانسس سلواّڈور نامی پہلا یہودی منتخب ہوا۔اور اگلے برس فرانسس سلواڈور امریکا کی جنگِ آزادی میں لڑتے ہوئے کام آ گیا۔

چارلس لیون پہلا یہودی سیاستدان تھا جو اٹھارہ سو پینتالیس میں وفاقی کانگریس کے ایوانِ نمایندگان کے لیے منتخِب ہوا۔اسی برس ڈیوڈ لیوی کو پہلا امریکی یہودی سینیٹر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

کسی بھی امریکی شہر ( پورٹ لینڈ۔ریاست اوریگون ) کا پہلا یہودی مئیر بننے کا اعزاز اٹھارہ سو انہتر میں برنارڈ گولڈ اسمتھ کو حاصل ہوا۔واشنگٹن بارٹلیٹ پہلا یہودی سیاستدان تھا جو اٹھارہ سو ستاسی میں کسی بھی امریکی ریاست ( کیلی فورنیا ) کا پہلا گورنر منتخب ہوا۔ امریکا کی صدارتی کابینہ میں پہلی بار کسی یہودی سیاستداں کو ( انیس سو چھ ) وزارتی قلمدان (تجارت و لیبر ) ملا۔ان کا نام تھا آسکر اسٹراس۔

لوئی برانڈیس پہلے یہودی قانون دان تھے جنھیں انیس سو سولہ میں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔  (ان سے پہلے اٹھارہ سو تریپن میں صدر میلارڈ ملفورڈ نے جوڈا بنجمن کو سپریم کورٹ کا جج بننے کی پیش کش کی مگر جوڈا نے اسے بوجوہ قبول نہیں کیا )۔

فلورنس پراگ کہان پہلی یہودی خاتون تھیں جو انیس سو پچیس میں ایوانِ نمایندگان کی رکن منتخب ہوئیں۔انیس سو چونتیس میں ہنری مارگینتھوو پہلے یہودی امریکی وزیرِ خزانہ بنے۔

انیس سو چونسٹھ کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدر لنڈن بی جانسن کے مدِ مقابل ریپبلیکن امیدوار سینیٹر بیری گولڈ واٹر تھے۔وہ فضائیہ کے سابق جنرل رہ چکے تھے۔گولڈ واٹر بہت کم ووٹوں سے صدر بنتے بنتے رہ گئے۔ان کے والد یہودی مذہب پر قائم رہے مگر گولڈ واٹر اپنی والدہ کے اثرات میں انگلیکن چرچ کے پیروکار تھے )۔اگرچہ کوئی آئینی پابندی نہیں ہے مگر اب تک کوئی غیر عیسائی امریکی صدارت کا حلف نہیں اٹھا سکا )۔

جیمز شیلسنگر پہلے یہودی سیاستدان تھے جنھیں انیس سو تہتر میں امریکی وزارتِ دفاع کا قلمدان ملا۔انھوں نے نکسن اور فورڈ انتظامیہ کے تحت دو برس خدمات انجام دیں۔

اگرچہ صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر اور بعد ازاں نکسن اور فورڈ دور کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنگر جرمنی سے امریکا ہجرت کر کے آنے والے ایک یہودی خاندان سے تھے۔مگر انھیں اپنا یہ تعارف پسند نہیں تھا۔وہ نظریے کے بجائے عملی تقاضے نبھانے والی سفارت کاری کے لیے جانے گئے اور ان کی کئی پالیسیوں کو یہودی و اسرائیلی لابی بھی ناپسند کرتی تھی۔ ان کے بارے میں ہم جلد تفصیلی بات کریں گے۔

ایڈورڈ لیوی انیس سو پچھتر میں امریکی انتظامیہ کے پہلے یہودی اٹارنی جنرل بنے۔جدید امریکی سیاست میں فعال خواتین کرداروں میں ڈائینی فینسٹائین کا نام بہت اوپر ہے۔وہ پہلی بار انیس سو ستتر میں کسی بڑے امریکی شہر ( سان فرانسسکو ) کی مئیر بنیں اور لگاتار دو مدتیں پوری کیں۔انیس سو بانوے میں ڈائینی اور باربرا باکسر کیلی فورنیا سے پہلی خاتون سینیٹرز کے طور پر منتخب ہوئیں۔دونوں کا تعلق متوسط یہودی خاندانوں سے تھا۔

ڈائنی اکتیس برس تک مسلسل سینیٹر رہیں۔اس حیثیت میں انھوں نے ماحولیات کے تحفظ ، منشیات کی حوصلہ شکنی ، صنفی تشدد ، انسانی اسمگلنگ ، اور جعلی ادویات کے خلاف موثر قانون سازی میں حصہ لیا۔انھوں نے سی آئی اے کے نظربندی کیمپوں اور قیدیوں پر تشدد کے بارے میں ایک چھ سالہ جائزہ مرتب کیا۔اس کے سبب قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے پرتشدد طریقوں میں واضح تبدیلی کے لیے سی آئی اے کو پابند کیا گیا۔

انھوں نے سینیٹ کی انٹیلی جینس اور عدلیہ کمیٹی کی سربراہی بھی کی اور امریکن اسرائیل پبلک افیرز کمیٹی ( ایپک ) میں بھی فعال کردار ادا کیا۔مگر وہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کرنے کی بھی وکیل تھیں۔دو ہزار تئیس میں نوے برس کی عمر میں ڈائنی فینسٹائن کا انتقال ہوا۔وہ سینیٹ میں سب سے طویل عرصہ گزارنے والی پہلی خاتون سیاستدان تھیں۔

روتھ گنزبرگ پہلی خاتون یہودی قانون دان تھیں جو انیس سو ترانوے میں امریکی سپریم کورٹ کی جج بنیں۔

سینیٹر جو لبرمین سن دو ہزار کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ایل گور کے نائب صدارتی امیدوار تھے۔ ریپبلیکن امیدوار جارج بش تکنیکی بنیادوں پر کامیاب قرار دیے گئے۔بصورتِ دیگر جو لبرمین پہلے منتخب یہودی نائب صدر ہوتے۔لبرمین کٹر اسرائیل نواز تھے۔انھوں نے انیس سو پچانوے میں کانگریس سے یروشلم ایمبیسی ایکٹ منظور کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔اس ایکٹ میں صدر کو پابند کیا گیا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرے۔بالاخر بیس برس بعد صدر ٹرمپ نے اس مطالبے کو پورا کیا۔جو لبرمین کا گزشتہ برس مارچ میں بیاسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔

رکنِ کانگریس ایرک کینٹر دو ہزار گیارہ تا چودہ ایوانِ نمایندگان میں ریپبلیکن اکثریت کے قائد رہے۔وہ کانگریس کے کسی بھی ایوان میں پہلے یہودی پارلیمانی قائد تھے۔

چک شو ماخر گزشتہ تئیس برس سے امریکی سینیٹ میں نیویارک کی نمایندگی کر رہے ہیں۔وہ نیویارک میں ہی روس سے ہجرت کر کے بسنے والے ایک یہودی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔دو ہزار سولہ میں وہ سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے قائدِ حزبِ اختلاف بنے اور دو ہزار بائیس میں سینیٹ میں ڈیموکریٹ اکثریت ہونے کے بعد قائدِ ایوان بن گئے۔اسرائیل پر دل و جان سے فدا ہیں۔بھلے وہاں کسی کی بھی حکومت ہو۔

اگلے مضمون میں ہم امریکی محکمہ خارجہ کا جائزہ لیں گے۔وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کا تو ہم پچھلے ایک مضمون میں تفصیلی ذکر کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ تین اور شخصیات ہیں جن کا پس منظر یہودی ہے اور وہ امریکی خارجہ پالیسی پر اپنے دور میں خاصی حد تک اثرانداز رہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

The post کاری! appeared first on ایکسپریس اردو.



Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں