گیند تیز سے باؤنڈری لائن کی جانب جا رہی تھی، فیلڈر نے اسے روکا اور پیچھے پھینکا جہاں صائم ایوب موجود تھے ، وہ پھسلے ٹخنے پر بوجھ پڑا اور وہ ٹوٹ گیا، صائم کو اتنی تکلیف تھی کہ بابر اعظم کا ہاتھ پکڑ کر وہ آنسوؤں پر کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے،30 سیکنڈز نے ان کی زندگی بدل دی۔
اس سے قبل کیریئر نے تیزی سے اڑان بھری، نہ صرف وائٹ بال بلکہ ٹیسٹ میں بھی وہ ریگولر اوپنر بن گئے، پی ایس ایل کیلیے ریکارڈ ڈھائی لاکھ ڈالر کی پیشکش بھی ہوئی، نولک شاٹ پر پہلے تنقید ہوتی تھی اب تعریف ہونے لگی، سعید انور کے ساتھ موازنہ کیا جانے لگا، سلیکٹرز کو لگا اب ہمیں ’’ ناخلف‘‘ فخر زمان کی ضرورت نہیں جو بابر اعظم کے حق میں ٹویٹ کرکے حکم عدولی کرتا ہے۔
لوگ صائم کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے بے تاب نظر آنے لگے، کمنٹیٹرز نے تعریف کے پل باندھ دیے لیکن ان 30 سیکنڈز نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا، وہ صائم جو پاکستانی بیٹنگ کا سہارا بن چکا تھا اب خود بیساکھیوں کے سہارے چلتے دکھائی دے رہا ہے، یہی زندگی ہے یہاں چند سیکنڈز یا منٹ انسان کی زندگی کو بدل دیتے ہیں، صائم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، کہا یہ جا رہا ہے کہ انھیں فٹ ہونے میں 6 ہفتے لگیں گے، البتہ یہ انجری خطرناک لگتی ہے۔
پی سی بی نے ایک اچھا فیصلہ انھیں علاج کیلیے انگلینڈ بھیجنے کا کیا ہے، اپنے میڈیکل پینل نے تو کئی پلیئرز کا کیریئر خراب کر دیا، جہاں ہر جانب خوب پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے ، ایسے میں اگر اپنے اچھے کرکٹر پر بھی کچھ رقم لگ جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کو صائم کی ضرورت پڑے گی،اگر وہ اور فخر زمان ایک ساتھ اوپننگ کریں تو وہ کیا دلکش منظر ہو گا، البتہ دیکھنا یہ ہوگا کہ انجری سے نجات کے بعد وہ کب دوبارہ میدان میں اترنے کے قابل ہوتے ہیں۔
زندگی کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ میں بھی وقت کا کچھ پتا نہیں ہوتا، آج کوئی ہیرو تو کل وہی زیرو بن جاتا ہے، ویراٹ کوہلی کو بھارت میں پوجا جاتا تھا آج وہی بھارتی ان سے ریٹائرمنٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، روہت شرما جو اپنی ٹیم کی جان تھے اب انہی سے جان چھڑانے کی کوشش ہو رہی ہے، میری کچھ دن قبل ایک کرکٹر سے بات ہو رہی تھی، میں نے اس سے پوچھا کہ قومی ذمہ داریوں کے ساتھ لیگز اور دیگر کمٹمنٹس کی وجہ سے وقت ہی نہیں ملتا ہوگا کچھ آرام بھی کیاکرو، جواب میں اس کا کہنا تھا کہ ’’ سلیم بھائی ہمارے کیریئر بہت مختصر ہیں۔
ماضی میں کھلاڑی 10،15 سال کھیل جاتے اور پھر اپنے اداروں سے زندگی بھر تنخواہ وصول کرتے رہتے، اب تو ہمیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ کب باہر ہو جائیں گے، یہاں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہے، جب تک پرفارم کریں لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ورنہ زمین پرپٹخنے میں بھی تاخیر نہیں برتی جاتی‘‘ واقعی یہ بات بالکل درست بھی ہے۔
بابر اعظم کی ہی مثال لے لیں، پاکستان کو برسوں بعد کوئی ایسا کھلاڑی ملا جو واقعی سپراسٹار کہلا سکتا ہے،شائقین اور میڈیا نے بھی انھیں خوب پذیرائی بخشی کنگ تک کا ٹائٹل دے دیا البتہ جب بیٹ خاموش ہوا تو تعریفی جملے بھی سنائی دینا بند ہوگئے، کنگ لوگوں کو کنگ کانگ لگنے لگا،انھیں صرف زمبابوے کیخلاف ہی پرفارم کرنے والا ’’زمبابر‘‘ تک قرار دے دیا گیا، وہ تو شکر ہے بابر کی فارم واپس آ گئی ورنہ تو وہ بھی جلد ٹی وی پر تبصرے کرتے ہی نظر آتے۔
یہ تو کرکٹرز کی بات ہے آپ پی سی بی کے چیئرمینز کو دیکھ لیں، چند برس قبل تک رمیز راجہ، ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کی مرضی کے بغیر قذافی اسٹیڈیم میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا آج انھیں کوئی نہیں پوچھ رہا، میڈیا مائیک لے کر گھنٹوں دروازے پر انتظار کرتا کہ شاید ’’چیئرمین صاحب ‘‘ دو جملے بول دیں، ہیڈ لائنز میں ان کا ذکر شامل ہوتا اب تو چھوٹی سی خبربھی نظر نہیں آتی، یہی رسم دنیا ہے، جب تک آپ کے پاس کوئی پوسٹ ہوگی لوگ عزت کریں گے ورنہ کوئی نہیں پوچھتا۔
مجھے حیرت موجودہ سلیکٹرز پر ہوتی ہے، عاقب جاوید،اظہر علی یا اسد شفیق سے ان کے قریبی لوگوں کو بھی شکایت ہے کہ رویہ بدل گیا ہے، وہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے تحکمانہ انداز میں بات کرتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ کل انہی کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا تھا، خیر پی سی بی کا تو پانی ہی خراب ہے جتنا اچھا انسان وہاں جائے چند روز بعد اس کا انداز ہی تبدیل ہو جاتا ہے، وہ خود کو ’’باس‘‘ اور دیگر کو غلام سمجھنے لگتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ جس عہدے پر آج بیٹھا ہے وہاں پہلے بھی کئی لوگ کام کر چکے اور اب بھولی بسری داستان بن گئے ہیں، البتہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھے وقت میں سب کچھ بھول جاتا ہے،آج جو سلیکٹرز تھے وہ کل کرکٹرز تھے اور ارباب اختیار کے رویے کا شکوہ کرتے نظر آتے، اب خود طاقت ملی تو جو پرانے لوگوں نے غلطیاں کیں وہی دہرا رہے ہیں، کرکٹرز، سلیکٹرز، کوچز ، پی سی بی آفیشلز یا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والے کوئی بھی افراد ہوں سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ چند سیکنڈز کسی کے بھی زندگی میں آ سکتے ہیں جو سب کچھ تبدیل کر دیتے ہیں۔
اگر آپ اپنے قدم زمین پر رکھتے ہوئے دوسروں کو بھی انسان سمجھیں، کالر کھڑے نہ کریں تو برا وقت اگر کبھی آیا بھی تو جلد نکل جائے گا اور کم بیک کا موقع ملے گا لیکن اگر فرعون بن گئے تو پھر شاید باقی زندگی اچھے وقت کو یاد کرتے ہوئے ہی گذر جائے، کاش ہم دوسروں کی غلطیوں سے ہی سبق سیکھ کر خود کو بہتر بنا لیں تاکہ زندگی اچھے انداز میں گذرتی رہے لیکن افسوس کوئی بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتا،بعد میں ہی یاد آتا ہے کہ ’’میں بڑا اہم تھا یہ میرا وہم تھا‘‘۔