6

قائد اعظم کا وژن اور فلسطین

قائداعظم نومبر 1946میں لندن کانفرنس میں شرکت کے بعد مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کی دعوت پر مصر پہنچے جہاں ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔

ان کے اعزاز میں عظیم الشان استقبالیہ دیا گیا جس میں قائداعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مصرکی آزادی صحیح معنوں میں آزادی اس وقت ہو گی جب پاکستان قائم ہو جائے گا۔ اور ہم لوگ بھی یعنی مسلمانان برصغیر اور مصر “حقیقی “طور پر آزاد ہونگے ورنہ ہندو ایمپرلیسٹ راج کا خطرہ سامنے آجائے گا جس کے سینگ سارے مشرق وسطی تک پہنچے ہونگے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر انڈیا پر حکمرانی ہندو ایمپرلیسٹ پاور کی ہو گی تو اس کا خطرہ مستقبل میں بھی اتنا بڑا ہو گا جتنا کہ برٹش ایمپریلزم کا تھا۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ سارا مشرق وسطیٰ کڑاہی سے نکل کر سیدھا چولہے (آگ )میں جا پڑے گا۔ مشرق وسطی کے مسلمان اگر آزاد ہونا چاہتے ہیں تو خود اپنی حکمرانی کے خواہاں ہوں ۔

انھیں کسی حلقہ اثر کے ماتحت نہیں رہنا چاہیے۔ قائداعظم کا کیا کمال کا وژن تھا۔ بلاشک وشبہ وہ مستقبل میں جھانکنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے ۔ جسے آج وقت نے ثابت کردیا ہے ۔ مشرق وسطی آج امریکی سامراج کی جن زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے انھوں نے اس کا آج سے تقریباً 80برس قبل ہی صحیح صحیح اندازہ لگالیا تھا ۔ جس خطرے کی نشاندہی قائداعظم نے کی آج ہندوسامراج مشرق وسطی کے لیے ایک عظیم خطرے کی شکل میں سامنے آچکا ہے ۔ اسے مارننگ ہیرلڈ ممبئی نے رپورٹ کیا ۔

فلسطین کے بارے میں اینگلو امریکن کمیٹی نے جب ایک رپورٹ شایع کی تو اس پر قائداعظم نے یکم مئی 1946کو ایک سخت بیان دیا تھا جو یہ تھا ۔ اینگلو امریکن کمیٹی نے فلسطین پر جو رپورٹ شایع کی ہے اور آج اخباروں میں شایع ہوئی ہے وہ میں نے دیکھی ۔ میں اس پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان وعدوں کی سراسر خلاف ورزی اور حددرجہ بد عہدی ہے جو عربوںسے کیے گئے تھے ۔ اس کو دیکھ کر مجھے بڑا صدمہ پہنچا ہے ۔ یہ شرانگیز سفارشات جن کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جارہی ہے ان کو عرب اور مسلمانان عالم ہر گز قبول نہ کریں ۔

قائد اعظم کا بیان پڑھ کر مفتی اعظم فلسطین جو پیرس کے نواح میں نظر بند تھے قائداعظم کے نام ایک تاریخی مکتوب عربی زبان میں 5مئی 1946کو لکھا جس میں انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کا وہ بیان پڑھوا کے سنا جس میں آپ نے فلسطین کے بارے میں تبصرہ فرمایا ہے، میں تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرنے کا موقعہ بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا کہ آپ فلسطین کے برادر مسلمانوں کو اس ظلم عظیم سے کسی طرح نجات دلائیں جس کا وہ شکار ہیں ۔ آج اہل فلسطین دوراہے پر کھڑے موت وحیات کے درمیان معلق ہیں جس کے ذمے دار یہودی، انگریز اور امریکی ہیں ۔

فلسطین کو بچانے کے لیے سب مسلمان ہم خیال ، ہم عمل ہو کر اگر آگے نہ بڑھے تو فلسطین قطعی طور پر غاصبوں کا لقمہ تر بن جائے گا اور خدانخواستہ مقدس مقامات بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گے ۔ جس کا ثبوت اسرائیل نے حال ہی میں شایع ہونے والے گریٹر اسرائیل کا نقشہ شایع کرکے دے دیا ہے۔ جس میں بیشتر عرب ممالک شامل ہے ۔ یعنی آج سے 8دہائیاں پیشتر بھی فلسطینی مسلمان زندگی اور موت کے درمیان معلق تھے۔ آج تو اس ظلم کی انتہا ہوگئی ہے ۔

گزشتہ سوا سال سے دن رات فلسطینیوں کا قتل عام کرکے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے ۔ دنیا بھی بے بسی کے عالم میں خالی خولی مذمت اور احتجاج کے علاوہ کچھ کر نہیں پارہی ۔ حال ہی میں ایران، حزب اﷲ ، حماس کی کمزوری اور فال آف شام نے امریکا اور اسرائیل کو وہ سنہری موقع فراہم کردیا ہے جس کا انھیں مدتوں سے انتظار تھا۔ اب انھیں نئے مشرق وسطی کی تشکیل سے روکنا نا ممکن ہے، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کے صدر بننے کے بعد۔ مارچ میں اس حوالے سے فیصلہ کن وقت کا آغاز ہو جائے گا۔

یہ مشرق وسطی کے حوالے سے ایک تباہ کن دباؤ ہو گا جس کے اثرات سے پاکستان بھی بچ نہیں پائے گا۔اس میں بھارت کا مرکزی کردار ہوگا۔جس خطرے کا ذکر قائد اعظم نے مستقبل میں امپریلسٹ راج کی شکل میں کیا یعنی ہندوسامراج اور یہاں تک بتا دیا کہ اس سامراج کا خطرہ برٹش امپریلزم جتنا ہی ہو گا۔ اس کی مثال قائداعظم نے ایسی دی کہ پورا مشرق وسطی جیسے جلتی ہوئی کڑاہی سے نکل کر آگ میں چلا جائے ۔ زمینی حقائق ہمیں بہت تیزی سے گھسیٹ کر اب اسی طرف لے جا رہے ہیں ۔ امریکا میں لگی حالیہ آتشزدگی جس نے ایک بہت بڑے رقبے میں رہائشی عمارتوں اور چیزوں کو جلا کر اس طرح خاکستر کردیا کہ اب وہاں ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے۔

وہ جب سزا دیتی ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ سب کس طرح وقوع پذیر ہوا ۔ایک طرف غزہ کی تباہی اوردوسری طرف یہ آتشزدگی۔ سیلاب ہیری کین، برفانی طوفان اس کے علاوہ ہیں جو امریکا میں آئے روز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ ابھی تو یہ صرف ان کی ابتداء ہے ۔ان کی شدت اس طرح بڑھے گی کہ ہوش اُڑجائیں گے۔ یہ دہشت گرد بائیڈن انتظامیہ کے کرتوت ہی ہیں جس کا بھگتان امریکی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں