1

ایک نئے سیاسی اور معاشی آزمائش کا دور

انتخابات کے بعد کا منظر نامہ پہلے سے ہی واضح تھا کہ وہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گا۔یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت سازی کی تشکیل سے پہلے ہی مجموعی طور پر سیاست اور زیادہ تقسیم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جو بھی حکومت بنے گی اس کے لیے پہلے ہی سے کانٹوں کی سیج سجائی جارہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ نئی حکومت کو ابتدا ہی میں سنگین نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگرچہ اس وقت قومی حالات کے پیش نظر بڑی سیاسی مفاہمت اور اتفاق رائے کی سیاست درکار ہے۔لیکن سیاسی تقسیم کا کھیل یا دیگر فریقین کے ساتھ ٹکراؤ کا ماحول ظاہر کرتا ہے کہ اتفاق رائے کی سیاست آسان نہ ہوگی ۔

ہماری انتخابی سیاسی تاریخ کی بدقسمتی یہ ہی رہی ہے کہ جو بھی جماعت انتخابات میں ہارتی ہے اس کا پہلا نقطہ ہی انتخابی دھاندلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس دفعہ انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کے عمل کو متنازعہ بنادیا گیا تھا ۔ اسی سوچ کے پیش نظر انتخابات کے نتائج کے بعد بہت سی سیاسی جماعتیں انتخابی دھاندلیوں کو بنیاد بنا کر اپنا اپنا لنگوٹ باندھ کر مزاحمتی سیاست کی بات کررہی ہیں۔

انتخابی دھاندلیوں کے کھیل میں کمشنر راولپنڈی نے جن انتخابی دھاندلیوں کے انکشافات کیے ہیں اس نے مجموعی طور پر انتخابات کی شفافیت کو کافی دھندلا کردیا ہے اور ان انکشافات کے بعد یہ کہنا کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں کافی مشکل مرحلہ ہوگا۔اب کمشنر راولپنڈی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی آزادانہ و شفاف تحقیقات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

بلوچستان میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی ، سردار اختر مینگل، ہزارہ تحریک اور جے یو آئی ، خیبر پختونخواہ میں جے یو آئی ، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جماعت اسلامی ، سندھ میں اندرون سندھ جی ڈی اے ، شہری سندھ میں جماعت اسلامی ، پی ٹی آئی ، جب کہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی انتخابات میں دھاندلی کو بنیاد بناکر نئی حکومت کو ابتدا ہی میں مشکل وکٹ پر کھڑا کردیں گی۔

انتخابات کے نتائج سے ہٹ کر حکومت سازی کے مراحل کو دیکھیں تو ہمیں مرکز میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت ایم کیو ایم و دیگر سیاسی جماعتیں وفاقی حکومت کا حصہ ہونگی اور پی ٹی آئی حزب اختلاف میں کھڑی نظر آتی ہے ۔

پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی اور پیپلزپارٹی اس میں اتحادی ہوگی۔ خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت کے ساتھ پی ٹی آئی آزاد حکومت بنائے گی ۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے ساتھ حکومت بناسکتی ہے اور یہاں پیپلزپارٹی کا وزیر اعلیٰ ہوگا۔

جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہی ہوگی اور ایم کیو ایم کو بھی اس میں حصہ دیا جاسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو اگر راضی کرلیا جائے تو ا ن کو بلوچستان کی گورنر شپ، مرکز اور بلوچستان میں وفاقی اور صوبائی وزارتیں اور بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کی نشست بھی مل سکتی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ حکومت بننے کے بعد سب سے مشکل صورتحال مسلم لیگ ن کی ہوگی ۔ اس کو ابتدا میں انتخابی دھاندلیوں کی تحریک سمیت معاشی صورتحال کی سنگینی کا سامنا ہے ۔حکومت کو ابتدائی طور پر نگران حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اہم سخت معاشی فیصلوں کی بھی قیمت ادا کرنی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف سے ہونے والے نئے معاہدے کی صورت میں جو نیا معاشی بوجھ عوام پر گرے گا اس کا بھی حکومتی جماعت پر سخت ردعمل ہوگا ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں