1

اسرائیل کی جارحیت اور اسلامی ممالک کی خاموشی

اسرائیل روزانہ سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل روزانہ سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسرائیل حماس جنگ کو شروع ہوئے تقریباً تین ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، اس دوران بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ابتدا میں جب غزہ پر بمباری شروع ہوئی تو پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھی۔ اسلامی ممالک نے اس کی مذمتیں کی۔ جو ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے جارہے تھے انہوں نے اپنے ان فیصلوں کو روک لیا اور اسرائیل کی مسلسل مذمت کرتے رہے، عالمی برادری سے اس معاملے پر توجہ دینے کی اپیل کرتے رہے۔ کئی ممالک کے سربراہان بالخصوص ایران کے وزیر خارجہ عرب ممالک کے مسلسل دورے کرتے رہے اور اسرائیل کے خلاف انہیں متحد ہونے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کا کہتے رہے۔

میڈیا پر بھی اس کے خلاف بہت آواز اٹھی۔ اسرائیل کی ان ظالمانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کی مظلومیت اور ان کی شہادتوں پر کئی پروگرام ہوتے رہے، مگر رفتہ رفتہ سب کچھ معمول پر آنے لگا۔ اسرائیل نے جنگ میں تو کچھ بھی معمول پر نہ آنے دیا، وہ تو مسلسل فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے، اسپتالوں کے محاصرے کیے ہوئے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کو بھی مارنے سے گریز نہیں کر رہا، روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے۔ شہریوں اور رہائشی علاقوں پر مسلسل بمباری جاری ہے، کئی مساجد کو شہید کرچکا ہے، غزہ کا محاصرہ اسی طرح سے جاری ہے، وہاں پر کسی طرح نرمی نہیں آئی، کچھ بھی معمول پر نہیں آیا۔

اسلامی ممالک اور ان کا میڈیا تو جیسے جنگ کی کوریج کر تے کرتے، جنگ کی مذمت کرتے کرتے اور جنگ کو روکنے کی اپیل کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ ان کی تو پہلے ذمے داری یہ تھی کہ جیسے ہی اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا تو ساتھ ہی وہ حماس کے ساتھ مل جاتے اور اس کے ساتھ مل کر اسرائیل کے دانت کھٹے کر دیتے۔ اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ 20 ہزار مسلمانوں کو شہید کرسکے۔ اتنے بڑے بڑے اسلحے، میزائل، ایٹم بم اور تجربہ کار فوجیں، سب کچھ ہونے کے باوجود بیس ہزار مسلمان ہماری آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ کے اندر شہید کردیے گئے اور ہم مذمتوں پر اکتفا کرتے رہے۔

یہ ہمارے لیے نہایت شرم کی بات ہے اور ڈوب مرنے کا مقام ہے پچپن سے زائد اسلامی ممالک کےلیے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی اپنے سامنے بیس ہزار مسلمانوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ کسی پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑ رہا۔ سب اپنے مزے میں ہیں اور اقتدار کے نشے میں دھت ہیں۔ کسی کو پروا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کس قدر ظلم ہورہا ہے، اور ہم ابھی تک زندہ ہیں، ہم محض تماشا دیکھ رہے ہیں اور عیاشیاں کر رہے ہیں۔

اگر یہ نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم جو مذمتوں کا ایک معمولی سا سلسلہ شروع کیا تھا، اس کو تو جاری رکھتے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم مذمتیں کرکے بھی تھک چکے ہیں۔ چند روز مذمت کی اور اس کے بعد خاموش ہوگئے۔ اب اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کسی دوسرے ملک میں جاکر اسرائیل کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔ اس جنگ میں حماس کی حمایت تو دور کی بات اسرائیل سے جنگ بندی کی ہی بھیک مانگ لیں یا او آئی سی کا اجلاس طلب کرکے ان پر اتنا ہی باور کرا دیں کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں ہمارے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔ اسلامی ممالک کا میڈیا جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا، پروگرام کر رہا تھا، اب وہ بھی خاموش ہوگیا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے، ہم کیوں اتنی جلدی تھک گئے ہیں؟ فلسطینی تو اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ تو نہیں تھکے۔ مگر ہم فقط بولتے ہوئے بھی تھک گئے ہیں۔ یہاں تو سب ایسے خاموش ہوگئے ہیں جیسے اب اسرائیل نے جنگ بندی کردی ہے، اب اس نے بمباری چھوڑ دی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، وہاں تو روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کیا جا رہا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسے خاموشی چھائی ہوئی ہے جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا۔

ہماری یہی مجرمانہ غفلت اور اتنے بڑے ظلم سے چشم پوشی ہی کفار کو شہ دے رہی ہے کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائیں۔ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کی طرف داری کے مترادف ہے اور قدرت ہونے کے باوجود اس کا ہاتھ نہ روکنا تو اس سے بھی بڑا ظلم ہے، اسلامی ممالک جس ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

اگر ہم بزدلی کی وجہ سے جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتے تو کم از کم ان کےلیے آواز تو بلند کرتے رہیں۔ دنیا کے تمام فورمز پر ان کے حقوق کی بات کرتے رہیں۔ ہمارے پاس پرنٹ و الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ہے تو ہم ان کے ذریعے سے فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرتے رہیں۔ دو دن آواز بلند کرکے انہیں بھول نہ جائیں بلکہ جب تک انہیں ان کے حقوق نہیں مل جاتے یا کم از کم جنگ بندی نہیں ہوجاتی تب تک تو ان کےلیے بولتے رہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ کرتے رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں