1

خود مختار ضلعے – ایکسپریس اردو

جمہوریت ہی وہ نظام ہے جس میں ریاست پر عوام کی بالادستی قائم ہوتی ہے۔ عوام کی ریاست پر بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ عوام مکمل طور پر بااختیار ہو۔ اس لیے جدید ممالک میں جمہوری نظام کو تین حصوں وفاق، صوبے اور بلدیاتی اداروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ترقیات کے ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی سے غربت کے خاتمے اور ترقی کا عمل تیز تر ہوتا ہے۔

انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو انھوں نے برصغیر میں پہلی دفعہ شہروں میں بلدیاتی نظام نافذکیا، یوں شہروں میں ترقی کا عمل تیز تر ہوا۔ مگر ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد بلدیاتی اداروں کا قیام غیر سول حکومتوں کا ایجنڈا بن گیا۔

غیر سول حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو پارلیمنٹ کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں نافذ ہوا مگر اس نظام میں ایک ہی خرابی تھی کہ صوبائی خود مختاری کو مکمل طور پر نظراندازکیا گیا تھا۔

1973 کے آئین میں بلدیاتی اداروں کا ذکر تو کیا گیا مگر اس آئین میں ایسی کوئی شق شامل نہیں ہے، جس کے تحت ہر حکومت مقررہ وقت پر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے انعقاد کی پابند ہو اور بلدیاتی ادارے مکمل طور پر خود مختار ہوں۔

پیپلز پارٹی کی تیسری چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے 1988میں پیپلز پارٹی کے منشور میں نئے سوشل کنٹریکٹ کو شامل کیا تھا جس کا مطلب پاکستان میں برطانیہ کی طرح کاؤنٹی کا نظام قائم کرنا تھا مگر تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور سے انحراف کرتے ہوئے نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے قیام کو اہمیت نہیں دی۔

متحدہ قومی موومنٹ جو شہری علاقوں کی نمایندگی کرتی ہے ہمیشہ نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے قیام کی امین بنی رہی۔ ایم کیو ایم کی قیادت نے تین بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے بااختیار بلدیاتی نظام کے قیام کے معاہدے کیے مگر یہ معاہدے کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔

متحدہ قومی موومنٹ کو بانی تحریک انصاف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت سے علیحدگی پر آمادہ کیا گیا تو ایم کیو ایم کی قیادت نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے دو علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں برسر اقتدار حکومت نے ایم کیو ایم سے کیے گئے کسی بھی معاہدے پر عملدرآمد نہیں کیا۔

ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن کے مابین بھی ایک معاہدہ ہوا ۔ اس معاہدے کے تحت دونوں جماعتوں کے درمیان بلدیاتی اداروں کے لیے آئین میں ترمیم پر اتفاق کا اظہارکیا گیا۔ ایم کیو ایم نے ’’ خود مختار ضلع، مضبوط پاکستان ‘‘ کے عنوان سے ایک آئینی ترمیم تیار کی ہے، اگر اگلی پارلیمنٹ نے اس آئینی ترمیم کو منظورکیا تو ملک میں بلدیاتی نظام مستحکم ہوجائے گا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سیکریٹریٹ سے حاصل کردہ دستاویز کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 140-A ایکٹ آئین میں 26ویں ترمیم کہلائے گی۔ اس ترمیم کے تحت لوکل گورنمنٹ کا ادارہ سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر مکمل طور پر خود مختار ہوگا۔

اس ایکٹ کی شق کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا پابند ہوگا۔ اسی طرح اب الیکشن کمیشن یونین کونسلوں، میونسپل کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹیوں کی تعداد اور ان کی حدود کا تعین بھی کرے گا۔

اس مسودہ قانون میں اسلام آباد کیپیٹل،کراچی، لاہور ، پشاور اورکوئٹہ کے بلدیاتی اداروں کے لیے سپر بلدیاتی اداروں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے۔

اس مسودہ قانون کے مطالعے سے ظاہر ہے کہ اگر بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہوئی تو عام انتخابات سے پہلے بلدیاتی انتخابات منعقد ہونگے۔ اس طرح اس مسودہ میں مالیاتی امور کے لیے بھی ایک فارمولہ تجویز کیا گیا ہے جس کے مطابق قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ سے 70فیصد حصہ کی رقم بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنی ہوگی اور 30فیصد صوبائی حکومتوں کو جائے گی۔ اس مسودہ کی شق 8 میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے علاوہ باقی ملک میں شہری علاقوں کو دیہی علاقوں سے منسلک نہیں کیا جائے گا۔

اس ایکٹ میں بلدیاتی اداروں کی ذمے داریوں کو واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے۔ اب بلدیاتی ادارے پلاننگ، زمینوں کی خرید و فروخت، اربن ڈیزائننگ، ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ، عمارتوں کی تعمیرکو ریگولرائز کرنے اور ٹاؤن پلاننگ کے پابند ہونگے۔

اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ، ماس ٹرانزٹ، ٹریفک مینجمنٹ اور ٹریفک ریگولیشن کی ذمے داری بھی بلدیاتی اداروں کے سپرد ہوگی۔ لوکل گورنمنٹ کے تمام محکمے بلدیاتی نظام کا حصہ بن جائیں گے۔ بلدیاتی ایکٹ کے تحت اسکولوں کی سطح پر مؤثر نظام لاگو ہوگا۔ کاٹیج انڈسٹری، پولیس کا نظام اور ٹریفک مینجمنٹ اس کے دائرہ کار میں شامل ہونگے۔

ایم کیو ایم کے اس مجوزہ ایکٹ کے تحت بلدیاتی ادارے مختلف صوبائی نوعیت کے فرائض انجام دیںگے۔ بلدیاتی اداروں کو مختلف نوعیت کے ٹیکس وصول کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ دنیا بھر میں نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کی بناء پر شہروں نے ترقی کی ہے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ بااختیار لندن کا میئر ہوتا ہے۔ برطانیہ میں کاؤنٹی شہریوں کی تعلیم، صحت، ہاؤسنگ حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم کی بھی ذمے دار ہوتی ہے۔ امریکا میں شہروں کے میئر انتہائی طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔

ایک سیاسی جماعت کے ملک چین میں بھی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم ہے۔ بھارت میں برسوں پہلے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم ہوا، وہاں مقامی حکومت اسٹیٹ ( صوبہ) کے نیچے ایک مضبوط نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ بھارت میں مقامی حکومت کا مطلب شہر اور دیہات ہے۔ شہریوں کو اپنی یونین کونسل منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے۔

یہ یونین کونسل انتہائی بااختیار ہے۔ بھارت میں اس وقت ڈھائی لاکھ کے قریب مقامی حکومتیں قائم ہیں اور 31 لاکھ کے قریب منتخب اراکین ہیں جس میں 13لاکھ کے قریب منتخب خواتین بھی شامل ہیں۔ مودی حکومت نے انگریز دورکی یادگار کنٹونمنٹ ایریا کو مقامی حکومت میں شامل کر دیا ہے۔

پاکستان میں بلدیاتی اداروں کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، صرف کراچی میں 20 سے زائد ادارے بلدیاتی امور انجام دیتے ہیں۔ بلدیہ کراچی شہر کے صرف 22 فیصد حصہ میں اپنا قانونی حق رکھتی ہے۔ ترقیات کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شہر میں صرف ایک بلدیہ ہونی چاہیے اور دیگر بلدیاتی ادارے نہیں ہونے چاہئیں۔ ایم کیوایم کی اس دستاویز میں خواتین کی لازمی نمایندگی کا ذکر نظر نہیں آتا۔ بلدیاتی اداروں میں 20 فیصد خواتین کی نمایندگی ہونی چاہیے۔

ایم کیو ایم نے قومی انتخابات سے پہلے بلدیاتی نظام کے قیام کے لیے اپنا مسودہ عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔

اب تمام سیاسی جماعتوں کو اس رپورٹ کو سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر ان نکات پر غور کرنے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے تاکہ اس اس مجوزہ آئینی ترمیم کی خامیاں اور خوبیاں اجاگر ہوسکیں۔ یہ ترمیم ملک کی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ تمام باشعور افراد کو اس پر رائے دینی چاہیے۔ بلدیاتی ادارے ہی ترقی کے عمل کو تیز کرسکتے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں