12

دو صدیوں پر پھیلی ہوئی آواز

وہ 1976 کا سال تھا اور شہر بمبئی تھا، جب شادی کے بھرے ہوئے ہال میں وہ قیمتی سفید ساڑھی میں لپٹی لپٹائی دھیمے قدموں سے داخل ہوئیں۔ ان کی آمد پر بہت سی تالیاں بجیں اور وہ آ کر سلمیٰ صدیقی اور میرے درمیان بیٹھ گئیں۔ سلمیٰ آپا نے مجھ ناچیز کا ان سے تعارف کروایا، وہ بہت محبت سے ملیں اور میں اپنے نصیبوں پر رشک کرتی رہی کہ بلبلِ ہند کے ساتھ مجھے بیٹھنے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔

یہ لتا منگیشکر تھیں!

اس روز محفل میں پری چہرہ نسیم، دلیپ کمار، سائرہ بانو اور جانے کون کون موجود تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب وہ مشکل سے آٹھ برس کی تھیں تو ان کے پتا جی نے جو ان کے گرو بھی تھے ان سے کہا تھا کہ ’’ صرف اپنے آپ سے خوف کھانا اور یہ سوچنا کہ تم جو کچھ بھی کر رہی ہو وہ درست ہے یا نہیں اور اگر تم یہ سمجھو کہ تم درست ہو تو ایک لمحے کے لیے بھی نہ ہچکچانا اوردوسرا خیال دل میں لائے بغیر اسی راستے پر چلتی جانا۔‘‘ میں نے ان کے کہے کو آج تک اپنے پلّو سے باندھے رکھا۔

لتا جی، نوشاد صاحب، مکیش جی اور رفیع صاحب کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہریش بھمانی نے بجا طور پر اپنی کتاب میں نوشاد صاحب کی نظم جو انھوں نے لتا جی پر لکھی تھی کا حوالہ دیا ہے کہ:

راہوں میں تیرے نغمے، محفل میں صدا تیری

کرتی ہے سبھی دنیا، تعریف لتا تیری

دیوانے تیرے فن کے انسان تو پھر انسان ہیں

حد یہ ہے کہ سنتا ہے آواز خدا تیری

تجھے نغموں کی جان اہلِ نظر یوں ہی نہیں کہتے

تیرے گیتوں کو دل کا ہمسفر یوں ہی نہیں کہتے

سنی سب نے محبت کی زباں آواز میں تیری

دھڑکتا ہے دلِ ہندوستان آواز میں تیری

ہریش بھمانی نے لکھا ہے کہ لتا جس طرح نمشکار کہتی تھیں، وہ دل موہ لیتا تھا۔ 28 ستمبر 1929 کو وہ مراٹھی کے ایک عظیم کلاسیکی گلوکار اور تھیٹر اداکار دیناناتھ کے گھر پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ ’’میں بہرحال مشہور ہوں گا۔‘‘ لتا کے نام نے ثابت کیا کہ وہ مشہور ہوئے۔

لتا ہوائی سفر سے بہت خوش نہیں ہوتی تھیں، لیکن وہ ہر سفر کے دوران جہاز میں کھڑکی کی طرف بیٹھتی تھیں اور بچوں کی طرح جہاز کے اترنے اور چڑھنے کا نظارہ کرتی تھیں۔ لتا جی نے 50 ہزار سے زیادہ گانے گائے جن میں نعتیں بھی شامل ہیں جو پاکستان میں بے حد مقبول ہیں۔ ان میں مغلِ اعظم کی یہ نعت بے حد دل کو چھو لینے والی ہے۔

آپ کے ہوتے ہوئے دنیا میری برباد ہے

بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ

گردش میں ہے تقدیر، بھنور میں ہے سفینہ

ہے وقتِ مدد آئیے بگڑی کو بنانے

پوشیدہ نہیں آپ سے کچھ دل کے فسانے

زخموں سے بھرا ہے کسی مجبورکا سینہ

اس نعت نے لاکھوں دلوں کو چھوا اور جب ان کے گزرنے کی خبر آئی تو میں نے بہت سے لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ وہ لتا منگیشکر جن کی گائی ہوئی نعت اتنی مقبول ہوئی ان ہی کا مغل اعظم میں 1960 کی دہائی کا گایا ہوا یہ گیت آج بھی زبان زدِ عام ہے۔

انسان کسی سے دنیا میں

اک بار محبت کرتا ہے

اس درد کو لے کر جیتا ہے

اس درد کو لے کر مرتا ہے

جب پیارکیا تو ڈرنا کیا

پیارکیا کوئی چوری نہیں کی

چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا

لتا کے گیت اسی طرح لوگوں کی زبانوں پر رہے اور آج بھی زندہ ہیں۔ مینا کماری ہندوستانی فلم انڈسٹری کی جانی مانی اداکارہ تھیں اور ان کی زندگی بہت دکھ درد میں گزری۔ لتا جی نے ان کے لیے کئی مشہور و معروف گیت گائے۔ لتا جی کو آواز میں مینا جی کی زندگی کا غم سمویا ہوا تھا۔

لتا منگیشکر نے ایک موقع پر کہا کہ ’’مینا جی بہت ہی موہنی صورت اور دل گداز آوازکی مالک تھیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ایک روز ان کے پاس مینا کماری کا فون آیا جس میں انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ ان کے گھر ہونے والی تقریب میں آ کر انھیں عزت بخشیں۔‘‘ جس پر لتا جی نے ان سے کہا ’’ میں ذاتی محفلوں میں نہیں گاتی۔‘‘ میری اس بات کو مینا جی نے دل پہ نہیں لیا، وہ میری ریکارڈنگز میں اکثر آتی رہیں۔ ایک مرتبہ انھوں نے میرے کھلے ہوئے بال دیکھ کر انھیں بہت سراہا، جس پر میں نے ان سے کہا کہ ’’ میں نے اپنے بالوں کو قینچی نہیں لگائی۔‘‘ لتامنگیشکر کو ہندوستان کے تمام عظیم ایوارڈز دیے گئے جن میں بھارت رتن ، پدما بھوشن اور دادا صاحب پھالکے سرفہرست ہیں۔

انھوں نے جن کروڑوں انسانوں کے زخموں پر اپنے گانوں سے مرہم رکھا، ان میں پاکستانی، ہندوستانی اور دوسرے ممالک کے لوگ شامل ہیں۔ ان پر ہندوستان اور پاکستان میں بہت عمدہ وفاتیے لکھے گئے۔ ان میں سے ایک پاکستانی صاحبہ نے لتا کے 10 بہترین گانے منتخب کر کے ان پر لکھا ہے اور اس میں انھوں نے اپنے ماضی کے تجربات اور ذاتی صدموں کو کھل کر لکھا ہے۔ ان کی تحریر پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری نئی نسل بھی ملال کے اس رشتے سے بندھی ہوئی ہے جس کو لتا جی نے بہت درد سے گایا ہے۔

لتا جی 8 جنوری 2022 میں بریچ کینڈی اسپتال میں داخل ہوئیں جہاں ڈاکٹر پراتیت صمدانی آخر تک ان کے معالج رہے۔ ان کے جانے کی وجہ کووڈ19 اور نمونیا بنے اور اسی وجہ سے ان کے مختلف اعضا کام کرنا چھوڑتے گئے اور آخر کار 6 فروری 2022 کو وہ اس المناک بیماری کو جھیلتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور ہر اس جگہ جہاں اردو اور ہندی سمجھی جاتی ہے وہاں سنگیت کے چراغ گل ہوگئے۔ لتا منگیشکر کا نام صدیوں زندہ رہے گا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں