[ad_1]
ذہنی صحت یا مینٹل ہیلتھ اس قدر اہم ہے کہ ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ کی تجویز پر 1992ء میں اس دن کو منانے کا آغاز ہوا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی بھرپور انداز میں اس دن کی سرپرستی کی اور یوں گزشتہ 32 برسوں سے بلاتعطل اس دن کو منایا جا رہا ہے۔
ہر سال اس دن کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک مرکزی موضوع یا تھیم فراہم کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں مختلف تقاریب اور سرگرمیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذہنی صحت کی مناسبت سے عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ برس ’’ذہنی صحت ایک آفاقی انسانی حق ہے‘‘ کے عنوان سے مرکزی موضوع فراہم کیا تھا، جبکہ رواں برس ’’کام کی جگہ پر ذہنی صحت‘‘ (Mental Health at Work) پر زور دیا جا رہا ہے۔ روزگار یا ملازمت کے ساتھ جڑے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوا ہے، چنانچہ متعلقہ ادارے کوشاں ہیں کہ ان مسائل پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔
اردو کا ایک مشہور شعر ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اکثر لوگ اسے غالب کا شعر سمجھتے ہیں مگر درحقیقت یہ شعر ایک غیرمعروف شاعر مرزاقربان بیگ سالک کا ہے۔ شعر کچھ یوں ہے،
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
شعر کسی کا بھی ہو مگر اس میں تندرستی کی جو اہمیت بیان کی گئی ہے اسے کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ اچھی صحت قدرت کا تحفہ اور بہت بڑی نعمت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ تنگ دستی قابل برداشت ہو سکتی ہے اور غربت میں جیسے تیسے انسان گزارہ کرلیتا ہے مگر خراب صحت انسان کے لئے عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ عمومی طور پر لوگ صحت سے صرف جسمانی صحت مراد لیتے ہیں۔مذکورہ شعر میں بھی صحت کا محدود تصور بیان کیا گیا ہے۔ اس شعر میں تندرستی کو ہزار نعمت قرار دیا گیا ہے۔ تندرستی دو لفظوں کا مرکب ہے یعنی تن اور درستی۔ اس لحاظ سے تندرستی کا مطلب جسم کا درست ہونا ہے۔
بلاشبہ انسان کا جسم درست اور صحت مند ہونا چاہیے مگر یہ صحت کا محدود اور ناقص تصور ہے۔ جدید طبی سائنس میں صحت کا تصور بڑے ہمہ گیر انداز میں سامنے آتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق صحت اس کیفیت کا نام ہے جس میں ایک انسان جسمانی، ذہنی اور سماجی اعتبار سے درست ہو۔ محض جسمانی ضعف یا بیماری کی غیر موجودگی کی بنیاد پر کسی شخص کو صحت مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صحت مند ہونے کے لیے لازمی ہے کہ انسان تینوں تناظر میں درست اور متوازن ہو۔ جسمانی، ذہنی اور سماجی توازن انسانی صحت کی بنیاد ہے۔
بات کو آگے بڑھانے سے پیشتر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اچھی ذہنی صحت ہوتی کیا ہے؟
اگر کوئی شخص کسی تشخیص شدہ نفسیاتی مرض میں مبتلا نہ ہو، تو کیا اس کی ذہنی صحت کو اطمینان بخش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب کچھ وضاحت کا متقاضی ہے۔ نفسیاتی مرض کا نہ ہونا بلاشبہ بہت ضروری ہے، مگر کئی دوسرے اہم محرّکات اور حقائق بھی ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ محض نفسیاتی مرض کی غیرموجودگی کافی نہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور آج کے ماہرینِ صحت کا خیال ہے کہ اچھی ذہنی صحت کا حامل اْسی شخص کو قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں مندرجہ ذیل خْوبیاں موجود ہوں:
٭ایسا شخص اپنی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہو۔
٭اس کے اندر اتنی استطاعت ہو کہ روزمرّہ زندگی کے دباؤ کا سامنا کر سکے۔
٭وہ کوئی نہ کوئی فائدہ مند کام کرسکتا ہو۔
٭وہ اس قابل ہو کہ سماج کو کوئی نفع پہنچا سکے۔
اس موقع پر ہمیں ان شکایات سے بھی واقف ہونا چاہیے، جن کی موجودگی ہمارے لیے تنبیہہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب بھی کسی شخص میں یہ شکایتیں محسوس ہوں، تو ہمیں خبردار ہوجانا چاہیے۔ ایسے شخص کی ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے اور وہ کسی نفسیاتی مرض میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔یہ شکایتیں درج ذیل ہیں:
٭کسی شخص میں معمول سے زیادہ فکر، پریشانی،خوف اور بے چینی پیدا ہو جائے
٭کوئی شخص مختلف معاملات میں غیر ضروری طور پر شک و شبہ کرنا شروع کر دے
٭کوئی شخص مسلسل غم زدہ اور اْداس نظر آئے
٭کسی کے مزاج میں معمول سے ہٹ کر تبدیلی محسوس ہو۔ یہ تبدیلی یاسیت، غیر معمولی مسّرت، غصّے اور چڑچڑے پَن کی شکل میں ظاہر ہوسکتی ہے
٭کوئی ملنسار اور زندہ دِل شخص یک دم سماجی دْوری اختیار کرلے اور تنہائی پسند ہوجائے
٭بھوک اور نیند کے معاملے میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہو، جو کمی و بیشی دونوں صْورتوں میں ہو سکتی ہے
جب بھی کسی شخص میں اس قسم کی تبدیلیاں محسوس ہوں تو ہمیں اس پر بَھرپور توجّہ دینی چاہیے۔ ممکن ہے کہ ایسا شخص کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوچْکا ہو یا مستقبل قریب میں مبتلا ہوجائے۔
ویسے تو نفسیاتی امراض کی ایک طویل فہرست ہے، مگر چند اہم امراض کا یہاں مختصر تعارف کروا دینا بہتر ہے۔
یاسیت کا مرض (Depression)
اس مرض سے ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر لوگ واقف ہوتے ہیں۔ اس مرض میں انسان شدید اْداسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کسی کام میں اس کا دِل نہیں لگتا۔ اپنا وجود بے مقصد اور بے قیمت محسوس ہوتا ہے۔ خودکْشی کے خیالات آتے ہیں۔
گھبراہٹ کا مرض (Anxiety)
اس مرض میں انسان بے چینی، فکرمندی، ڈر اور خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ بہت ساری جسمانی شکایات بھی ہوتی ہیں جن میں دِل کی دھڑکن کا بڑھنا، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جانا، لرزہ طاری ہونا اور پسینے کا غیرمعمولی اخراج وغیرہ شامل ہیں۔ گھبراہٹ کے مرض کی مزید کئی اقسام ہوتی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں۔
شیزوفرینیا
یہ بے حد خطرناک مرض ہے۔ اس میں انسان کی شخصیت، سوچ، رویہ اور گفتگو سب میں شدید بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ انسان کو عجیب و غریب قسم کے اوہام ہوجاتے ہیں۔ اْسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ لوگ اس کے خلاف ہو چْکے ہیں اور مختلف سازشوں میں مصروف ہیں۔ بعض اوقات اسے آوازیں سْنائی دیتی ہیں، مگر بولنے والا فرد موجود نہیں ہوتا۔
دوقطبی مزاج کا بگاڑ
اس مرض میں انسان کو دو قسم کے دورے پڑتے ہیں، جو چند دِنوں سے لے کر کئی ماہ تک طویل ہو سکتے ہیں۔ کبھی وہ یاسیت کا شکار ہوجاتا ہے، اور کبھی بالکل مخالف سمت میں چلا جاتا ہے، جہاں انتہائی سرخوشی کا عالم اس پر طاری ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو انتہائی عظیم ہستی سمجھنے لگتا ہے اور بہت زیادہ متحرّک ہو جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا مزاج انتہائی جارحانہ ہوجاتا ہے اور وہ لوگوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔اس مرض کو انگریزی میں Disorder Affective Bipolar کہا جاتا ہے۔
شخصیت کا بگاڑ (Disorder Personality)
شخصیت کے بگاڑ میں مبتلا افراد کو عمومی طور پر نفسیاتی مریض نہیں سمجھا جاتا۔ یہ عام لوگوں کی طرح معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں، مگر ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے اور وہ مختلف مسائل کا بھی شکار رہتے ہیں۔ شخصیت کے بگاڑ کی بہت ساری اقسام ہیں جن کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔
نفسیاتی عوارض ہر دور میں موجود رہے ہیں، مگر ہماری مشینی زندگی نے ان میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ زندگی کی فطری سادگی اور دِل کشی معدوم ہو گئی ہے اور ہمارے مثبت جذبات و احساسات کو جدید آلات نے برباد کردیا ہے۔اِسی لیے اقبال نے کہا تھا
ہے دِل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
لوگ زندگی کے حقیقی مقصد سے دور نکل گئے ہیں اور خدا سے تعلق انتہائی کمزور ہو گیا ہے۔ نفسیاتی امراض میں غیر معمولی اضافے سیعالمی حلقوں میں بے چینی اور تحرّک پیدا ہوا۔ 2013ء میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں 194ممبر مْمالک کے وزرائے صحت نے شرکت کی۔ اس موقعے پر عالمی ادارہ صحت نے 2013ء تا 2020ء تک کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کا اعلان کیا۔ 2019ء میں منعقدہ اجلاس کے دوران اس منصوبے کو 2030ء تک کے لیے توسیع دے دی گئی۔ اس 17سالہ منصوبے کے تحت ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن کے ذریعے نفسیاتی امراض پر قابو پانے میں کچھ مدد مل سکے گی۔ نفسیاتی امراض پر اْس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا، جب تک ہمیں نفسیاتی امراض کی وجوہات کا علم نہ ہو۔
کسی بھی نفسیاتی مرض کی وجوہات جاننے کے لیے ہمیں تین قسم کے عوامل پر نظر رکھنی چاہیے۔
مرض کی طرف راغب اور مائل کرنے والے عوامل
یہ وہ عوامل ہوتے ہیں جو ابتدائی زندگی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، انہیں انگریزی میں Factors Predisposing کہا جاتا ہے۔ کسی بھی نفسیاتی مرض کو جنم دینے میں ان کا اہم کردارہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ عوامل موروثی ہیں، اور کچھ کا تعلق انسان کے ماحول سے ہوتا ہے۔ انسان کی پیدائش سے لے کر بچپن تک پائے جانے والے عوامل پر ماہرینِ نفسیات بطورِ خاص توجّہ دیتے ہیں۔
مرض کا آغاز کرنے والے عوامل
یہ وہ عوامل ہوتے ہیں، جو مرض کے آغاز کے وقت موجود ہوتے ہیں اور بظاہر مرض کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں انگریزی زبان میں Factors Precipitating کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے عوامل ہر شخص کی زندگی میں موجود ہوتے ہیں، لیکن ہر شخص مختلف انداز میں ان کے اثرات قبول کرتا ہے۔ اس کا تعلق انسان کی قوّت ِ برداشت، شخصیت اور کردار کی تعمیر اور ماحول سے ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں قسم کے عوامل کی نشاندہی اردو کے ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
مرض کو طوالت دینے والے عوامل
ان عوامل کو انگریزی میں Factors Perpetuating کہا جاتا ہے۔ ان عوامل کی بڑی اہمت ہوتی ہے اور کسی بھی نفسیاتی مریض کا علاج کرتے وقت انہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بعض اوقات اوّل الذکر دونوں قسم کے عوامل ختم ہوچْکے ہوتے ہیں یا ان پر کامیابی سے قابو پالیا جاتا ہے، مگرمرض کو طوالت دینے والے عوامل اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور مریض کی مکمل صحت یابی مشکل ہو جاتی ہے۔
مندرجہ بالا تینوں اقسام کے عوامل کو سہ جہتی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی جسمانی، نفسیاتی اور سماجی۔ صرف نفسیاتی امراض نہیں، بلکہ ہرمرض کو آج اسی سہ جہتی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
دْنیا بَھر میں نفسیاتی امراض پائے جاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ یورپ اور امریکا میں نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے جگہ جگہ معیاری اسپتال اور طبّی مراکز موجود ہوتے ہیں۔ لوگ بڑی تعداد میں علاج کے لیے ان اسپتالوں اور طبّی مراکز کا رْخ کرتے ہیں۔ ایک جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ نفسیاتی امراض کے معالج سے رابطہ ضرور کرتا ہے۔ اس حوالے سے تیسری دْنیا کے مْمالک اور خصوصاً پاکستان کی صْورتِ حال خاصی تشویش ناک اور ناگفتہ بہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے جو تازہ ترین اعدادوشمار جاری کیے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں۔ ان اعدادو شمار کے مطابق دْنیا کے تقریباً ایک ارب لوگ کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ اہم تر بات یہ ہے کہ ان ایک ارب افراد میں سے ہرساتواں فرد نوجوان ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق کورونا کی وبا کے پہلے سال میں یاسیت (Depression) اور گھبراہٹ (Anxiety) جیسے عوارض کی شرح میں25فی صد سے زائد اضافہ ہوا۔
عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ نفسیاتی امراض میں مبتلا 70فی صد افراد کو وہ تعاون نہیں ملتا، جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ کم آمدنی والے مْمالک میں صرف12 فی صد مریض ہی اپنا علاج کرواپاتے ہیں۔ ڈپریشن کے مریضوں کے حوالے سے اعدادوشمار صْورتِ حال کی سنگینی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے مْمالک میں ڈپریشن کے صرف 23 فی صد مریضوں کو علاج کی سہولتیں مل پاتی ہیں۔ جب کہ درمیانی اور کم آمدنی والے مْمالک میں یہ شرح صرف تین فی صد ہے۔
اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے، تو پریشانی میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی امراض، پاکستان میں کْل بیماریوں کا چار فی صد ہیں۔ پاکستان کے ڈھائی سے تین کروڑ لوگوں کو نفسیاتی علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں نفسیاتی امراض کے معالجین کی تعداد بہت کم ہے۔ مجموعی طور پر معالجین کی تعداد پانچ سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ لاکھ افراد کے لیے صرف ایک نفسیاتی امراض کا معالج موجود ہے۔
ایک طرف نفسیاتی امراض کے ماہرین کا فقدان ہے، دوسری طرف ہوش ربا انداز میں نفسیاتی مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شیزوفرینیا جیسا خطرناک مرض دْنیا کی ایک فی صد آبادی میں پایا جاتا ہے۔ اگر کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، تو ان میں سے ڈھائی لاکھ لوگ شیزوفرینیا کے مریض ہیں۔
عمومی گھبراہٹ کی بیماری ( disorder anxiety Generalized ) دنیا کے چار فی صد افرادمیں پائی جاتی ہے۔ خیال رہے کہ گھبراہٹ کی بیماری کی اور بھی کئی شکلیں ہیں۔ مجموعی طور پر دْنیا کے تیس فی صدلوگ گھبراہٹ کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کم و بیش دنیا کے دس فیصد لوگ یاسیت یا ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے خطرناک بات یہ ہے کہ لوگوں میں آگاہی اور شعور بہت کم ہے۔ لوگ نفسیاتی بیماری کو سفلی علم، تعویذ، کالا جادو اور جنّات کے اثرات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے علاج کے لیے کسی سند یافتہ معالج کے پاس جانے کے بجائے طرح طرح کے ٹوٹکوں یا نام نہاد روحانی معالجین سے رابطہ کرتے ہیں۔
لوگ ہر نفسیاتی مرض کو پاگل پَن یا دیوانگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر ڈپریشن کے مریض کو علاج کے لیے ماہرِ امراضِ نفسیات کے پاس بھیجا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہم کوئی پاگل تو نہیں ہیں ، جو نفسیاتی علاج کروائیں۔ نفسیاتی امراض کے معالج کے پاس جانا معاشرے میں بہت بڑا عیب سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملے میں والدین حد درجہ حساس ہوتے ہیں۔ نفسیاتی علاج کی ہر قسم کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے ورنہ لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔
ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں کچھ سوچنا ہو گا۔ نفسیاتی مریضوں کو تذلیل سے بچانا ہو گا۔ لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہو گا۔ لوگوں کو سمجھانا ہو گا کہ نفسیاتی مرض کوئی عیب نہیں ہوتا۔ نفسیاتی امراض قابل علاج ہوتے ہیں۔ ان کا علاج اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسمانی امراض کا ہوتا ہے۔
[ad_2]
Source link