26

’چھاتی کا سرطان‘ جان لیوا تو نہیں ہے مگر…

’سرطان‘ جیسے موذی مرض کا نام سنتے ہی ہمارے دماغ میں ایک ہی خیال آتا ہے کہ بس اب مرض کا علاج ناممکن اور مریض کے پاس وقت کم ہے۔ ہم ایسا کیا کریں کہ اس موذی بیماری سے اپنے پیارے کو بچا لیں اور زندگی کی جانب واپس لے آئیں۔ ایسا ہی کچھ معاملہ چھاتی کے سرطان سے بھی جُڑا ہوا نظر آتا ہے۔

آج کی ڈیجیٹل دنیا  میں جس کو انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا دور بھی کہا جاتا ہے، شاید ہی کوئی باشعور انسان ایسا ہو جو چھاتی کے سرطان (چھاتی کا سرطان) جیسی موذی بیماری سے آگاہ نہ ہو، لیکن پھر بھی یہاں خواتین کو اس سے بنیادی آگاہی  فراہم کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی قابل ذکر اور اہم بات ہے کہ بہت سی خواتین سے چھاتی کے سرطان سے متعلق بات چیت میں پتا چلتا ہے کہ اس بیماری سے متعلق یہ غلط فہمی بھی عام ہے کہ یہ ایک نسوانی مرض ہے اور صرف خواتین میں پایا جاتا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ مرض مردوں میں عام نہیں، لیکن ان میں بھی موجود ضرور ہے۔

درحقیقت چھاتی کا سرطان ایک ایسی بیماری ہے، جس میں غیرمعمولی خلیے غیر معمولی انداز میں بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور ان کی حد سے زیادہ ا فزائش ’رسولی‘ کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر ان کی صحیح طور پر جانچ اور علاج نہ کیا جائے، تو یہ رسولی اور اس کے موذی اثرات پورے جسم میں پھیل سکتے ہیں اور یہ صورت حال کافی مہلک ہوتی ہے۔

آسان الفاظ میں سمجھیں تو چھاتی کا سرطان ایک ایسی رسولی یا گْٹھلی ہے، جو کہ چھاتی کے خلیات میں غیر ضروری ٹشوز کے گچھے کی شکل میں جمع ہونے سے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض خواتین لوبولر کینسر کا بھی شکار ہو سکتی ہیں یعنی کہ ٹیشوز کی غیر معمولی نشوونما کی وجہ سے اگر آپ کی چھاتی  پر گلٹی سی محسوس ہو تو اس کا معائنہ ہونا ضروری ہے، تاکہ اطمینان ہوسکے کہ اس کا تعلق اس مرض سے نہیں۔ اسی طرح اگر گلٹی یعنی ڈِپ ہو یا دونوں یا پھر اس میں سختائی سی محسوس ہو تو یہ بھی اس بیماری ممکنہ علامت ہو سکتی ہے۔ اس کی جانچ کے لیے یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر متعلقہ معالج سے رجوع کرکے اسپتال سے اس کا ضروری ٹیسٹ کرایا جائے۔

اس کے علاوہ اگر یہ تمام علامات بغل میں نمودار ہوں، تو تب بھی یہ چھاتی کا سرطان کی علامت ہو سکتی ہے، جب کہ چھاتی کے حجم اور ساخت میں فرق جیسی علامات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ابتدائی شکل جان لیوا نہیں ہے اور ابتدائی مراحل میں اس کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ سرطان کے خلیے چھاتی کے قریبی ٹِشو میں پھیل سکتے ہیں۔ اس سے ٹیومر (رسولی) بنتے ہیں، جو گانٹھ یا گاڑھا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال میں دنیا بھر میں 2.3 ملین خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی، جن میں سے چھے لاکھ ستر ہزار خواتین میں مذکورہ بیماری اموات کا سبب بنی۔ دنیا بھر کے ہر ملک میں یہ موذی بیماری خواتین میں بلوغت کے بعد کسی بھی عمرمیں نمودار ہو سکتی ہے، لیکن اس کی بڑھتی ہوئی شرح 40 سال سے زیادہ کی عمر کی خواتین میں زیادہ ہے، جب کہ ایک اندازے کے مطابق اس موذی بیماری کا شکار مریضوں میں ننانوے فی صد تعداد خواتین اور صرف ایک فی صد تعداد حضرات کی ہے۔ مردوں میں چھاتی کے سرطان کا علاج خواتین کے لیے کیے گئے انتظام کے انھی اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چھاتی کا سرطان دوسری بیماریوں کی طرح قابل علاج ضرور ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب کہ بالکل ابتدائی مرحلے پر اس کی تشخیص کرنے کے ساتھ اس کا فوری علاج شروع کرا دیا جائے، یعنی بیماری کی پہلے یا دوسرے مرحلے پر ٹریٹمنٹ کا آغاز ہونا ضروری ہے۔ بہ صورت دیگر تیسرے یا چوتھے اسٹیج یا مرحلے پر یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے مختلف طریقے ہیں، جن میں سب سے مؤثر طریقہ میموگرافی ہے، جو ایک خاص قسم کا ایکسرے ہے۔ یہ ابتدائی مراحل میں چھاتی کے کینسر کی موجودگی کو ظاہر کرنے کا مؤثر طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے لیے الٹراساؤنڈ اور بایوپسی ٹیسٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

بہت سے ممالک میں، سالانہ معائنے اور اسکریننگ پروگراموں کے ذریعے خواتین کو بیماری کی تشخیص کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں، چھاتی کے کینسر کے حوالے سے اسکریننگ کی سہولتیں محدود ہیں، اور خواتین اس کا شکار ہونے کے بعد ہی علاج کی طرف راغب ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے شرح اموات زیادہ ہے۔

مرض کی پہلی اسٹیج پر تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کو اس بات کا ادراک ہو کہ ان کو یہ بیماری کسی بھی وقت لاحق ہو سکتی ہے اور بیماری کی پہلے مرحلے میں تشخیص کے لیے ان کو چاہیے کہ وہ ایک ماہ میں نہیں تو دو سے تین مہینے میں اپنے ٹیسٹ ضرور کروائیں یا کم از کم خود اپنا معائنہ کریں کہ کہیں وہ چھاتی کے سرطان کی جانب تو نہیں بڑھ رہیں۔

خواتین میں پائے جانے والے سرطان میں اب چھاتی کا سرطان بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی پہلے یہ مرض پچاس سے ساٹھ سال کی عمر کی خواتین کو زیادہ لاحق ہوتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں تیزی سے مبتلا ہوتی نظر آتی ہیں۔

ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ کیوں کہ یہ بیماری موروثی بھی ہو سکتی ہے اسی لیے خواتین کو چاہیے کہ اپنی بچیوں کو اس موذی مرض سے نہ صرف آگاہ کریں، بلکہ اپنی بیٹیوں کو باقاعدگی سے چیک اپ کرانے کی عادت بھی ڈالیں اورکسی بھی معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں۔

دنیا بھر میں چھاتی کا سرطان کا علاج کا تعین اس کے اسٹیج سے کیا جاتا ہے۔ عموماً پہلے اور دوسرے مرحلے میں کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن تیسری یا چوتھی اسٹیج پر چوں کہ بیماری خطرناک شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے، لہٰذا اس کا علاج کیموتھراپی سے ہی ممکن ہوتا ہے یا دوسری صورت میں آپریشن کے ذریعے اس کا تدارک کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے، یہاں بہت سی خواتین اس بیماری کی علامات سے ناواقف ہیں اور بروقت معائنہ نہیں کرواتیں۔ صحت کے اداروں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ خواتین کے تعلیمی اداروں اور ان کے لیے محدود مقامات پر خصوصیت کے ساتھ چھاتی کے کینسر سے متعلق آگاہی کی مہم چلائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اپنی صحت کے بارے میں محتاط رہ سکیں۔ آگاہی مہم کے ذریعے چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے اور خواتین کی صحت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم ڈاکٹر کے مطابق چھاتی کا سرطان کی ایک بڑی وجہ خواتین کا غلط طرزِ زندگی ہے۔ یعنی کے غیر متوازن غذا کا استعمال، ذہنی اور نفسیاتی دباؤ یا پھر تنہائی بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین اپنا خیال رکھیں اور ماہانہ معائنے کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں